• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا ہم واقعی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

کیا ہم واقعی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

ہمارے جذباتی اور سادہ عوام کو جس شعور کے تحت انقلابی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بہت ہی خطرناک کھیل ہے جو ہمیں تباہی، عدم برداشت اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری پر جو کچھ ہوا وہ صرف قابل افسوس اور قابل مذمت ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارا مالی نقصان ہوا بلکہ قومی تشخص کو بھی عالمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ میں نے جب پہلے دن وہ وڈیو دیکھی جس میں کور کمانڈر ہاؤس میں مظاہریں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں تو مجھے یقین نہیں  آیا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ گو میں لاہور کے اس علاقہ سے واقف نہیں مگر اس کے باوجود میرا دل مانتا ہی نہیں تھا کہ ایک کور کمانڈر کے گھر درجن بھر ڈنڈا بردار مظاہرین کا جتھہ اتنی آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔

خیر پھر تین دن تک ہماری سوشل میڈیا تک رسائی ہی ختم ہوگئی اور جب دوبارہ رسائی حاصل ہوئی تو پتا چلا کہ وہ بات سچ تھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری سرکاری املاک، دفاعی یادگاروں اور فوج تنصیبات کا نقصان ہوا۔ ان واقعات کے کئی پہلو ہیں جن میں حفاظتی اور قانونی بھی ہیں۔ کیسے وہ لوگ اتنی آسانی سے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوئے یہ تحقیات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ مگر میں یہاں وہ نفساتی پہلو جن کا تعلق ہماری معاشرتی، سیاسی، ترقیاتی یا سماجی زندگی سے ہے بارے بات کرنا چاہوں گا۔

سوشل میڈیا میں اب کئی وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن سے مختلف قسم کی معلومات مل رہی ہیں جن میں حفاظتی انتظامات تو بالکل ہی نظر نہیں آتے۔ کیا معلوم اس کی کیا وجوہات ہونگی جو تحقیقات کے بعد سامنے آئینگی لیکن اس ہجوم کے داخلے کے مناظر دیکھیں تو مظاہریں کے پاس صرف ڈنڈے ہیں اور وہ گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ انکو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر وہ ان پر اثر کرنے میں ناکام رہی اور چار دیواری میں داخل ہو گئے۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری نفسیات میں گھر اور چار دیواری کی کوئی قدر و منزلت نہیں اور نہ ہی پیار، محبت اور شائستگی ہمارے رویوں پر اثر رکھتی ہے۔ اگر وہاں ایک بھی بندوق والا ہوتا اور وہ ہوائی فائر ہی کر دیتا تو شائد یہ درجن بھر افراد وہاں سے سیکنڈز میں رفو چکر ہو جاتے۔ یہ ہیں ہماری جرات و بہادری کے پیمانے۔

میرا نہیں خیال کہ ان مظاہرین میں شامل افراد کی اکثریت یہ بھی جانتی ہو کہ یہ کور کمانڈر کی رہائش ہے۔ یقیناً کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جن کو معلومات ہونگی اور اس میں کوئی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس وفد میں موجود شخصیات یا ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ وہاں کے مقامی نہیں تھے بلکہ وہ شہر کے کسی دوسرے علاقے سے ریلی کی شکل میں وہاں پہنچے تھے۔ تو یہ بھی غالب گماں ہے کہ ان کو اس طرف مائل بھی کیا گیا ہو یا سوچی سمجھی سازش کے تحت وہاں لایا گیا ہو۔

بلکہ یہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں کہ کسی کی طرف سے مظاہرین کو اندر آنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب اس میں وڈیوز بنانے والے بہت سے کیمرے عمل سے گزر رہے تھے۔ وڈیوز کا شوق تو ہمیں اس قدر ہو چکا ہے کہ کوئی زندگی کے آخری سانس بھی لے رہا ہو تو اس کے منہ میں پانی ڈالنے والا کوئی نہیں ہوگا اور وڈیو بنانے والے کئی ہونگے۔ اب ان کی اپنی ہی وڈیوز جو وہ اپنی سادہ اور انقلابی سوچ کے ساتھ وائرل کرتے رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف ثبوت کے طور پر انکے جرائم کو ثابت کریں گی تو پھر انکو اپنی شعور کے نام پر تباہ کن سوچ کا اندازہ ہوگا۔

پھر ان کی باتیں سنیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے کوئی دشمن کا قلعہ فتح کر لیا ہو۔ ایک نوجوان کو میں نے کہتے ہوا سنا ہے “یہ ہمارا عوام ہی کا پیسہ ہے۔ عوام بھوک سے مر رہی ہے اور یہ کتنی شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں امتیازی سلوک کی انتہا ہے جس بارے میں اپنے مضامیں میں نشاندہی بھی کرتا رہتا ہوں اور یہ احوال بھی ہماری سوچ و عمل ہی کے عکاس ہیں۔

بہرحال اس نوجوان کی سوچ سے یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو یہ شعور تو دیا گیا ہے کہ حکومت اور ریاستی اداروں پر خرچ ہونے والے اخراجات عوام ہی کی جیب سے جاتے ہیں مگر اس سوچ کو بھی مثبت انداز میں نہیں دیا گیا یا پھر ہماری تربیت اس سوچ کو ابھی مکمل نہیں کر پائی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرکاری املاک اور تنصیبات ہماری ہی ہیں تو پھر ان کو توڑنے اور برباد کرنے کی سوچ و عمل کتنے جاہلانہ ہیں۔ ہمیں یہی سبق دیا گیا ہے کہ دوسرے پر جھپٹ پڑو یا ان سے چھین لو۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ہمارے اندر ان املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہوگیا ہے تو پھر انکی حفاظت کا شعور بھی ہوتا۔ یہ لوٹ کھسوٹ والی سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے اندر تفریق کا احساس بھی ہے جو ابھی بھی ہماری ذاتی مفادات کی سوچ کا عکاس ہے۔ ہم دوسرے پر تنقید تو کرتے ہیں مگر ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہر چیز دوسرے کے قبضے سے نکل کر ہمارے پاس آ جائے۔ دوسرے کے پاس ہو تو ناجائز ہے اور اگر میرے پاس آ جائے تو جائز اور حلال ہو جائے گی۔ یہی وہ بنیادی سوچ کا زاویہ ہے جو ہمیں قوم بننے کے عمل میں رکاوٹ ہے۔

ایک اور اچھا خاصہ خوش لباس نوجوان جو شکل و شباہت سے پڑھا لکھا بھی لگ رہا ہے۔ گیٹ کے اندر سے مخاطب ایک شخص سے استفسار کر رہا ہے کہ “کی آپ فوجی ہو؟” اور ساتھ ہی بکواس بھی کر رہا ہے اور مظاہریں کو اشتعال دلاتے ہوئے فوج کے خلاف اپنے ذہن میں موجود نفرت کو بھی بے نقاب کر رہا ہے۔

عوام ہو فوج یا کوئی اور ادارہ اس میں موجود لوگ ہم ہی میں سے ہیں اور اسی معاشرے نے ان کی تربیت کی ہے۔ اسی معاشرے کے خاندانوں میں وہ پیدا ہوئے اور اسی معاشرے کے ماحول نے ان کی تربیت کی اور سوچ دی جس کے ثمرات آج ہماری اس معاشرتی تقسیم، نفرتوں اور امتیازی تقسیم کا سبب بن رہی ہیں۔ جس کے تحت ہم جہاں بھی بیٹھے ہیں اپنی ذات کے حصار کو توڑ ہی نہیں پا رہے۔

ہمارے یہی رشتہ دار یا ہم وطن اپنے ریاستی وسائل کو عوام کی امانت سمجھ کر استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کے استعمال سے ملک و قوم کے اندر انتشار اور ظلم و تباہی کے اسباب کو جنم دے رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہمیں ہر نہتے پر غصہ آتا ہے اور اپنی جرات کو آزمانے کا جہادی جذبہ لئے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں اور ہر طاقت ور پر ہمیں اپنی اندرونی کمزوریاں چھپانے کے لئے ترس آنے لگتا ہے۔ ہم ایک عجب سے احساس محرومی و عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

ہم سب ایک دوسرے کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور ایک دوسرے کے شر اور دہشت سے محفوظ رہنے کے لئے ہر طرف حفاظتی حصار کے جال بچھا رہے ہیں۔ یہ ریڈ زون ہے۔ یہاں ہر کوئی نہیں آ سکتا۔ ہماری سوچوں نے ہمیں معاشرتی تقسیم میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت میرے خیال میں سب سے زیادہ ہمارے وسائل سیکیورٹی اور فضولیات پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان میں بھی روزگار کے مواقعے ملتے ہیں مگر اس سے کوئی مثبت ترقیاتی تبدیلی کے فوائد حاصل نہیں ہو رہے جن سے ہماری معیشت آگے بڑھ رہی ہو جس سے ہماری آنے والی نسلوں کی ضروریات اور ترقی کا سامان مہیا ہو سکے۔

کیا اس سادہ اور جذباتی قوم کے اس سوچ کے حامل ذہنوں کو ہم انقلابی کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ سوچ و عمل ہماری کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے؟ نہیں قطعاً نہیں۔ ہم کو جو شعور دیا جا رہا ہے وہ بھی ادھورا ہے۔ ہمیں یہ تو بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ریاستی وسائل کے بنیاد پر تنخواہیں، وظائف اور مراعات میں امتیازی تقسیم ہے مگر وہ سوچ نہیں پیدا ہو رہی جس سے ان کی تقسیم کو بہتر بنایا جا سکے بلکہ ایک انتقامی اور نفرتوں بھری چھین جھپٹ اور لوٹ کھسوٹ سے تقسیم کو ایک ہاتھ سے نکال کر دوسرے ہاتھ میں دینے یا لینے کا بندوبست کیا جا رہا ہے جو ہمارے مسائل کا حقیقی حل نہیں۔

ان وسائل سے مستفید ہونے والے ہاتھ تو پہلے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کئی ایسے ہی ہاتھ درمیانے طبقے یا غریب گھروں سے ان وسائل تک پہنچبے ہیں مگر وہ وہاں پہنچ کر ان کے اندر سے وہ مڈل کلاس یا غریب طبقہ کی ہمدری والی سوچ ختم ہو جاتی ہے اور وہ خود ان وسائل سے مستفید ہو کر امیر طبقہ میں شامل ہونے کی دوڑ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر وہ سوچ نہیں ہوتی جو امتیازی سلوک کو ختم کر سکے یا انکی خواہشات کو جائز ضروریات تک محدود رکھ سکے اور دوسروں کی جائز اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان ریاستی وسائل کا بہاؤ غریب اور ضرورت مند طبقے کی طرف موڑ سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہماری سوچ کا محور برابری، دوسروں کی ضروریات کا خیال اور خوف خدا ہو۔ ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ معاشرے تب امن اور فلاح پاتے ہیں جب ہر کوئی دوسرے کی ضروریا ت کا خیال رکھنا شروع کر دے تو اپنی ضروریات خود بخود ہی پوری ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم کسی دوسرے انسان کی ضرورت کو پورا کرنے پر حاصل ہونے والی خوشی کی حقیقی لذت سے آشنا ہو جائیں گے۔ دنیا بھر کے وسائل وہ خوشی کی لذت نہیں دے سکتے جو ایک ضرورتمند انسان کے کام آنے سے ملتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply