تم بھی چو ر ہو۔ وہ بھی چور ہے۔ یہ بھی چور ہے

اللہ جانتا ہے کہ آج تک ہم اس بات پر یقین محکم رکھتے تھے کہ ہمارے سیاستدان صر ف شاہانہ مزاج رکھتے ہیں لیکن قومی اسمبلی کے اندر ہونے والی ریسلنگ دیکھنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ ان کے مزاج شریف شاہانہ ہی نہیں جارحانہ بھی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مزاج میں یہ جارحانہ پن اسی شاہانہ پن کا نتیجہ ہو، کچھ بھی ہو لیکن ہماری امیدوں پر حسب معمول، حسب روایت اور حسب عادت ایک بار پھر سے پانی پھر گیا ہے جب ہمیں اپنے سیاستدانوں کے مزاج کے اس نئے پہلو سے آشنائی ہوئی۔ اپنے صحافتی کیریئر میں قومی اسمبلی کی کوریج کا اتفاق تو نہیں ہوالیکن اس کی چھوٹی بہن صوبائی اسمبلی سے بیشمار مرتبہ سامنا رہا اور اللہ جانتا ہے کہ وہاں عوام کے ووٹوں سے پہنچنے والے شاید ایک فیصد بھی لوگ ایسے نہ ہوں جنہیں اتنا ہی احساس ہوتا ہو کہ یہاں ہم کس کام سے آئے ہیں اور کیسے آئے ہیں ۔اسمبلی سیشن شاید واحد دورانیہ ہوتا ہے جس میں حکومتی اراکین حکومتی اراکین نہیں رہتے ہیں اور اپوزیشن اراکین اپوزیشن اراکین نہیں رہتے بلکہ ”معزز اراکین اسمبلی” بن جاتے ہیں اور شاید یہ گرمیوں میں شدید ٹھنڈے اور سردیوں میں خوب گرم ہال کی کرامات ہیں جو انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہیں ورنہ اس ہال سے باہرقدم رکھتے ہی حکومتی اراکین حکومتی اراکین بن جاتے ہیں اور اپوزیشن اراکین اپوزیشن اراکین میں ڈھل جاتے ہیں۔معزز اراکین اسمبلی ہال کے اندر زبردست قسم کی محبت اور بھائی چارے کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں، ایوان کی کاررائی شروع ہونے سے پہلے اکثر حکومتی ااور اپوزیشن اراکین اپنے دوستوں سے میل ملاقات کی خاطر ان کے بنچوں کا رخ کرلیتے ہیں اور خوب ساری گپ شپ ہوتی ہے بسا اوقات تو گپ شپ کا یہ سلسلہ ایوان کی کارروائی کے شروع ہونے کے بعد حتیٰ کہ اکثر تو ختم ہونے کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ اسپیکر صاحب کوئی مرتبہ ان کئی سالوں کے بچھڑے دوستوں کو ٹوکنا پڑتا ہے لیکن مجال ہے جو اکثر کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔ کئی بار اسپیکر صاحب کی جانب سے معزز اراکین کو سنجیدہ رہنے کی خاطر تنبیہہ کیلئے ڈانٹ ڈپٹ کے تو ہم خود گواہ ہیں۔ کون کہتا ہے کہ سیاستدان اچھے دوست نہیں ہوتے، ان سے اچھا تو کوئی دوست ہوہی نہیں سکتا (بشرطیکہ دوست بننے یا بنانے والا ان کے کسی نہ کسی کام آسکے)۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر دنیا کے مختلف ممالک کی ایوانوں میں ہونے والی دھینگامشتی اورلڑائی جھگڑے کی وڈیو بڑی مقبول ہوئی۔ ہماری نظر سے بھی گزری، سوچا تفریح طبع کیلئے چاچاٹوپک کو بھی دکھادیتے ہیں۔ انہیں دکھائی تو کافی دیر تک تو یہ تسلیم کرنے کو ہی راضی نہ ہوئے کہ یہ ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے ممالک کی اسمبلی میں ”عوام کے وسیع تر مفاد” میں کھیلی جانے والی کُشتیاں ہیں یا مچھلی بازار کے مناظر۔ جب کئی مرتبہ دیکھنے کے بعد انہیں عام اور پھٹے پرانے کپڑوں کی بجائے سوٹڈ بوٹڈ اورٹائی لگائے لوگ ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے دکھائی اور ماں بہن کی دعائیں دیتے سنائی دیئے تب جا کر انہیں یقین آیا۔ چاچاٹوپک کا کہنا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے صرف اور صرف اپنا مستقبل روشن کرنے کیلئے اسمبلی ہالوں تک پہنچنے والوں کو اس طرح ایک دوسرے پر لاتوں گھونسوں کی بارش کرتے شرم آنی چاہیے، اپنی نہ سہی کم سے کم اس ووٹ کی ہی عزت کا خیال کریں جن کے ذریعے انہیں اس ایوان تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ چاچا ٹوپک نے بڑے فخرسے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ شکر ہے اس میں کسی پاکستانی اسمبلی کا سین نہیں ہے ورنہ یہ سین انہیں ”شین” (شرمسار) کردیتا۔ ہم نے بھی اپنی طرف سے تھوڑی بہت صحافت جھاڑتے ہوئے جواب دیا۔”شکر ہے چاچا! ہمارے سیاستدان جیسے بھی ہیں کم سے کم اس حوالے سے باقی دنیا کے سیاستدانوں سے بہترہیں کہ اسمبلی میں لڑتے تو نہیں، عوام کے حقوق کی جنگ تو وہ ویسے بھی نہیں لڑتے، چلو یہ بھی بہتر ہے آپس میں نہیں لڑتے ۔” لیکن رواں ہفتے قومی اسمبلی میں جو کچھ دیکھنے کو ملا اس نے میرے ہی نہیں چاچاٹوپک کے بچے کھچے ارمان اور بھرم پر بھی ٹھنڈا ٹھار پانی انڈیل مارا ہے۔ بھلا بتایئے یہ اسمبلی کے ایوان اب اس کام کیلئے ہی رہ گئے ہیں کہ جہاں ایک دوسرے کے پیچھے ”فلاں چور ہے فلاں ڈاکو ہے” کے نعرے لگائے جائیں اور اور اس کے بعد ”معزز اراکین اسمبلی” آپس میں مشت و گریبان ہوتے رہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب سا رجحان پیدا ہوچلا ہے۔ ”تم چور ہو۔” ایک الزام ہے جس پر لگتا ہے اسے خود کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے ، جواب دینے کی ضرورت ہے لیکن اس کا ایک نیا جواب یہ پیدا کرلیا گیا ہے کہ ”تم بھی چور ہو، وہ بھی چور ہے، یہ بھی چور ہے۔” یعنی کسی کو اس بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ اسے چور کہا گیا ہے اس نے اپنی جان دوسروں کو بھی چور کہہ چھڑالی۔چاچاٹوپک اپنی اسمبلی کے اس واقعے پر دیگر ممالک کی ”اسمبلی فائٹ” پر زیادہ افسردہ ہیں وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ بیٹا دیگر ممالک کی اسمبلی میں لڑنے والے جو کچھ کہہ رہے تھے وہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن اپنی اسمبلی میں تو گالیاں بھی ہماری قومی زبان میں دی جا رہی تھیں، اللہ جانے جانے کس کس نے سنی ہوں گی۔بات تو چاچاٹوپک کی صحیح ہے لیکن ظاہر ہے اب قومی اسمبلی میں لڑائی جھگڑے کے دوران گالیاں بھی قومی زبان میں ہی دی جائیں گی وہاں پہنچنے والے اگر اتنے ہی پڑھے لکھے ہوتے کہ انگریزی زبان میں گالیاں دیتے تو یہ کام ہی کیوں کرتے ۔قومی اسمبلی کے تمام تر وقوعے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ نکلا کہ قومی اسمبلی میں موبائل کے ذریعے فوٹیج بنانے کو ایوان کے قواعد و ضوابط اوراصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لوجی! موبائل سے فوٹیج بنانے کو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی قراردینے والوں سے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ جو منظر اس فوٹیج میں محفوظ ہے وہ کس حد تک قواعد و ضوابط اور اصولوں کی پاسداری کر رہا ہے؟چوری اور پھر سینہ زوری کی اس سے بڑی مثال اورکیا ہوسکتی ہے۔عوام کے خون پسینے کی کمائی اور سبز باغ دکھا کر حاصل کردہ ووٹوں کے دم پر پر ایوان میں بیٹھ کر عیاشی کرنے والے جو کریں وہ ٹھیک، وہی نازیبا حرکتیں دنیا کو دکھائی جائیں تو وہ غلط۔واہ ری جمہوریت…اونٹ کی طرح تیری بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply