پٹواری, یوتھیے اور بوٹ پالشی۔۔ارشد غزالی

پٹواری, یوتھیے اور بوٹ پالشی۔۔ارشد غزالی/وطنِ عزیر میں انگریزوں کے پارلیمانی جمہوری نظام کا بدبودار لاشہ گھسیٹا جارہا ہے جس کا تعفن اور سرانڈ اب ناقابلِ برداشت ہورہی ہے، اس نظام سے ہمیشہ سے صرف اشرافیہ مستفید ہوتی آ رہی ہے اور ہر حکومت میں اس گلے سڑے پارلیمانی جمہوری نظام سے برسر اقتدار انے والے ریاستی سربراہ کا زیادہ تر وقت “فصلی بٹیروں” کو پکڑنے اور مینج کرنے میں صرف ہوتا ہے، یہ برساتی مینڈک اپنے ذاتی مفادات کے لئے حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں اور پارلیمانی جمہوری نظام کا سربراہ ایک کو سنبھالتا ہے تو دوسرا مینڈک پھدک پڑتا ہے چنانچہ ان سیاسی مافیاز کا رسہ کشی کا یہ کھیل نہ ہی حکومت کو مضبوط ہونے دیتا ہے اور نہ ہی عوام کے لئے کوئی مثبت اور تعمیری کام ہونا ممکن ہو پاتے ہیں۔

اگرچہ ملک میں مارشل لائی صدارتی اور امرانہ نظام بھی آزمائے جا چکے ہیں مگر ہمارا موضوع اس وقت پاکستانی سیاست میں رائج اصطلاحات ہیں ،خاص طور پر “بوٹ پالش” جس کی گونج 25 دسمبر کو وفاقی وزیر فواد چوھدری کی ٹویٹ کے بعد اس وقت زیادہ سنائی دی جب وزیر محترم نے فرمایا کہ “جو لوگ وطن واپسی کیلئے ڈیلوں کا انتظار کریں وہ سیاست میں ہمیشہ بونے ہی رہیں گے، نون لیگ والے بوٹ پالش کا سامان لے کر کھڑے ہیں صرف کوئی بوٹ آگے نہیں کر رہا”۔

جب کہ کچھ عرصہ قبل بھی تحریک انصاف ہی کے وزیر فیصل واوڈا نے اے آر وائی نیوز کے ٹاک شو میں گفتگو کے دوران اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر چلنے اور بوٹ پالشی میں فرق ہوتا ہے، مسلم لیگ نون کا طرز سیاست بوٹ پالش کرنا ہے، اسی شو کے دوران انہوں نے ساتھ لایا ہوا “بوٹ” اٹھا کر لہرایا جس پر وزیراعظم عمران خان نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر کچھ عرصے کیلئے ٹاک شوز میں جانے پر پابندی عائد کی تھی۔

بر سبیل تذکرہ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق انسانی تاریخ میں جوتوں کے استعمال کی تاریخ چالیس ہزار سال قدیم ہے جب موسمی حالات، زمینی ساخت اور سردی سے محفوظ رہنے کے لئے انسان نے ابتدائی طور پر اپنے پاؤں کو درختوں کی چھال سمیت مختلف چیزوں سے ڈھکنا شروع کیا تھا تب کون سوچ سکتا تھا کہ کسی دور میں جوتے تحفظ سے ہٹ کر اسٹائل اور سٹیٹس تک کا عنصر بن سکتے ہیں، اب تک سب سے قدیم دریافت ہونے والا چمڑے کا جوتا ساڑھے پانچ ہزار سال قدیم ہو یعنی اہرام مصر اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں سے بھی قدیم، آرمینیا کی ایک غار سے دریافت ہونے والا یہ جوتا گائے کے چمڑے سے بنایا گیا تھا اور اسے تیل سے نرم کیا جاتا رہا ہے ماہرین کے مطابق وہ تیل کسی پودے یا چربی سے حاصل کیا گیا تھا مگر راقم کا قیاس ہے کہ وہ کسی انسان کا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ حاکم اور محکوم کا رشتہ ہمیشہ سے قائم و دائم ہے اور اس غار میں ملنے والے دیگر آثار سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ وہ کسی سردار کی رہائش تھی جس کے باہر پہرے داروں یا غلاموں کے رہنے کے آثار بھی موجود ہیں، یہی جوتے آگے چل کر “بوٹوں” کی بنیاد بنے، وہی بوٹ جنہوں نے ہمیشہ پاکستانی سیاستدانوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا اور ان کے اس “پیشے” کو دوام بخشا۔

سیاست میں اگرچہ “پیلی ٹیکسی” سے “ٹریکٹر ٹرالی” تک کئی اصطلاحات سیاسی پارٹیوں کی طرف سے استعمال کی گئیں مگر سب سے زیادہ عروج کی حقدار “بولٹ پالشی” ٹھہری، پاکستان میں “بوٹ پالش” اور “بوٹ پالشی” کی اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے، جب کوئی شخص فوج سے کوئی معاملہ طے کرنے کی کوشش کرے، فوج کے کسی کام کی تعریف کرے خواہ وہ حقیقت ہی کیوں نہ ہو، یا فوج کے حوالے سے کوئی مثبت بات کرے تو پاکستانی فوج سے عناد رکھنے والے “بغضیے” اسے بوٹ پالش یا بوٹ پالشی کا نام دیتے ہیں، گو یہ اصطلاح سب سے زیادہ سیاسی پارٹیوں پر منطبق ہوتی ہے جو ہمیشہ اور ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے جوتے پالش کر کے اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئیں، یہ الگ بات ہے پالش کی عدم دستیابی کی صورت میں ان کی طرف سے بوٹ چاٹ کر بھی اپنے مقاصد حاصل کئے گئے مگر اقتدار سے نکالے جانے کے بعد وہی “بوٹ پالشی” اس اصطلاح کو مخالفین کے لئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ پاکستانی فوج ہی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک سلامت ہے ورنہ سیاستدان کب کا اس ملک کو بیچ کر کھا چکے ہوتے، اگرچہ اب بھی انھوں نے “کھانے” اور ملکی اثاثے گروی رکھوا کر ملکی سالمیت اور خودمختاری “بیچنے” میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، نا اہل سیاستدان اور حکمران اپنے اقتدار کے علاوہ زلزلے، سیلاب اور ٹڈی دَل سے لے کر الیکشن اور مردم شماری سے پولیو اور امن و امان کی صورتحال تک ہر معاملے میں اسی فوج پر تکیہ کرتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوں تو “نکالے جانے” کا رونا گانا شروع کر کے اسی فوج کو بدنام کرنے پر تل جاتے ہیں، اختلاف کسی پالیسی پر کیا جائے یا کسی شخص کے غلط فیصلے پر خواہ وہ دانستہ ہو یا نادانستہ تو عقل تسلیم کرتی ہے مگر بغض میں بطور ادارہ پوری فوج کو بدنام کرنا اور ملک دشمنوں اور غداروں کی حمایت کہاں کا انصاف ہے ؟ایسے میں حقائق کا آئینہ دکھایا جائے تو خونی لبرلز، زرد صحافت کے ترجمان اور پینتالیس فیصد دماغی گروتھ والے مندر کے گھنٹے کی طرح دن رات بجنا شرورع ہوجاتے ہیں اور اپنے اندر کا زہر اگلنے لگ جاتے ہیں،
تحریک انصاف کے زیادہ تر سپورٹر نوجوان ہیں اس لئے پاکستانی سیاست میں ایک اور مشہور اصطلاح “یوتھیا” رائج ہوئی جو یوتھ سے نکلی ہے یہ تحریک انصاف کے ان سپورٹرز کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو خان صاحب کو دیوتا اور عقل کُل مان کر حکومت اور خان صاحب کی ہر صحیح غلط پالیسی اور فیصلوں کی حمایت کرتے اور تحریک انصاف کی خامیوں اور کوتاہیوں کو پس پشت ڈال کر سارا ملبہ “صرف” ماضی کی حکومتوں اور سیاستدانوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں ،جو کسی حد تک درست بھی ہے مگر مسائل کے سلسلے میں جتنے اہم فیکٹر ماضی کی حکومتیں اور “سیاہ ست دان” ہیں اتنی ہی ذمہ دار خان صاحب کی غلط پالیسیاں، غلط فیصلے، بد انتظامی اور کئی وزراء کی نااہلیت بھی ہے، مگر یوتھیے یہ سب سمجھنے کے باوجود میں نہ مانوں کی گردان کرتے نظر آتے ہیں، اگرچہ تحریک انصاف کے سپورٹرز کی اکثریت تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والی ہے اور کئی ایک درست اور غلط کی تفریق برقرار بھی رکھتے ہیں مگر اجتماعی طور پر قوم یوتھ بھی باقی سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔

جیسے تحریک انصاف کے سپورٹرز یوتھیوں کے لقب سے جانے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نواز یعنی نون لیگ کے سپورٹرز “پٹواری” کے لقب سے پکارے جاتے ہیں، حالانکہ راقم کا خیال ہے کہ “پٹواری” قوم، ذات، برادری،رنگ، نسل یا کسی مخصوص سیاسی پارٹی کا ورکر نہیں بلکہ ایک “کیفیت” کا نام ہے جو کہیں بھی کبھی بھی کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے خاص طور پر ان لوگوں پر جن کی دماغی گروتھ محدود ہو، اب وہ صحافی ہوں یا سیاسی ورکر ان کے افعال، اعمال اور سیاست سے متعلق کردار ایک جیسے نظر آتے ہیں، تحریک انصاف کے ورکرز “پٹواریوں” پر بریانی کی ایک پلیٹ اور بوٹی پر بِک جانے کا الزام بھی لگاتے نظرآ تے ہیں جس کے بارے میں راقم فیصلہ نہیں کر پایا کہ انھیں اعتراض اس میں “کھوتے” کے گوشت کو شامل کرنے پر ہے، مفت بریانی کھانے پر ہےجو خان صاحب کی مہمانوں کو صرف “ایک چائے اور ایک بسکٹ” پیش کرنے کی پالیسی سے متصادم ہے یا پھر بریانی کو بدنام کرنے پر ،،جو بہرحال ایران سے برصغیر تک پہنچی اور اب ہر دستر خوان کی زینت سمجھی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں “جیالے” کے لقب کے حقدار پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز ٹھہرتے ہیں جو کسی زمانے میں پورے پاکستان میں پائے جاتے تھے مگر محترمہ بینظر بھٹو کے بعد اب صرف اندرون سندھ تک محدود ہوچکے ہیں، ان اصطلاحات سے قطع نظر من حیث القوم بھی ہم اخلاقیات اور اقدار کھو چکے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی جڑیں گہرائی میں سرائیت کر چکی ہیں ،اللہ تعالی سے دعا ہے وطن عزیز کو خوشحالی، امن اور استحکام نصیب ہو اور ہم سب فرقوں، ذاتوں، برادریوں اور سیاسی جماعتوں کے بجائے ایک قومی تشخص پر متحد ہوسکیں، آمین!

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply