اپنا گریباں چاک۔۔اعظم معراج

یہ 2014ءکی بات ہے، ان دنوں میری کتاب ”سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہدائی “نئی نئی شائع ہوئی تھی اور یہ کتاب فادر مختار عالم کے ذریعے فادر عنایت برناڈ تک پہنچی فادر عنایت برناڈ جو مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی ہم آہنگی کے بھی بہت بڑے داعی ہیں اور اس بات کے یقین کرنے والے ہیں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کام پاکستانی مسیحیوں کے لئے اچھا ہے تو پھر روایات اور روزمرہ کی روٹین سے ہٹ کر بھی انسان کو سوچنا اور عمل کرنا چاہئے۔ طرز کُہن پر اڑے نہیں رہنا چاہیے۔ لہٰذا وہ اپنی سمینری کے طالب علموں کی ذہنی نشوونما کے لئے نئے نئے کام مثلاً ”تذکرہ مشاہیرمسیحی“ اور اس طرح کی غیر روایتی کام کرتے رہتے ہیں فادر مختار عالم کی وساطت سے جب سے میری اُن سے ٹیلی فونک دوستی ہوئی ہے وہ میرے پروگرام نوجوان ورغلاؤ مہم کو بہت سراہتے ہیں بلکہ اب تو لگتا ہے جیسے وہ میم سیپ تحریکِ شناخت (MMSAEPP) نوجوان ورغلاؤ مہم کے تہذیب یافتہ نام کے چیف والینٹر ہیں بلکہ میری اس سماجی آگہی مہم کو پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس سلسلے کی پہلی دونوں کتب نہ صرف سینٹ میری سیمنری لاہور میں اپنے طالبعلموں کو پڑھارہے ہیں بلکہ اپنے جاننے والے ہر شخص کو پڑھوانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ مسیحی نوجوانوں کی اپنے معاشرے سے بیگانگی اور اس میں مثبت تبدیلی کے موضوع پر میری اُن سے اکثر ٹیلی فون پر گفتگو رہتی ہے اسی گفتگو کے دوران انہوں نے ایک دن بتایا کہ ہم یہاں سیمنری میں پہلے فادر ندیم فرانسیس کی کتاب ”یہ دیس ہمارا ہے“ پڑھاتے تھے اب ہم نے آپ کی دونوں کتابیں بھی پڑھانی شروع کردی ہیں،اپنی کتابوں کے لئے یہ اعزاز میرے لئے ایک خوشگوار خبر تھی۔ فادر ندیم فرانسیس کی کتاب مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے کی تشکیل کردار کے موضوع پر ایک بہترین دستاویز ہے یہ کتاب مختلف شعبوں میں مسیحیوں کے کردار کے موضوعات پر مختلف لوگوں کے لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے یہ پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موضوع پر شائع ہوئی یہ اس موضوع پر ایک نہایت ہی عمدہ کوشش ہے فادر ندیم فرانسس کا مقصد تو بہت واضح ہے اس میں زیادہ تر مضامین تو بہت معیاری ہیں لیکن کئی مضامین ایسے ہیں جو لکھنے والے حضرات کی اپنے موضوع سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں اور اشاعت کے ذمہ داروں نے بھی اسے بغیر کسی تحقیق کے اس کتاب میں شامل کرلیا ہے مثلاً ایک صاحب جن کا نام کتاب میں جاوید ولیم ایگزیکٹو سیکریٹری نیشنل کارتیاس پاکستان درج ہے اپنے مضمون ”کلیسائے پاکستان کی مختصر تاریخ میں کتاب کے صفحہ نمبر97 اور صفحہ نمبر 98 پر اعداد و شمار کی مدد سے پاکستان میں مسیحیوں کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ میں نے یہ مضمون پڑھا تو پہلے بھی تھا اور یہ تعداد بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کی ہوئی ہے لیکن جب فادر عنایت نے یہ بتایا کہ ہم یہ کتاب مستقبل کے فادروں کو پڑھا رہے ہیں تو میں نے اس مضمون کو پھر غور سے پڑھا تو یہ کوئی ٹائپنگ کی غلطی نہیں بلکہ موصوف نے پتہ نہیں کسی مقصد یا لاعلمی سے بار بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہماری آبادی ہے تو بہت زیادہ لیکن حکومت ہماری تعداد کم بتاتی ہے۔ میں نے فادر عنایت سے بات کی اور ان کی توجہ اس مضمون کی طرف مبذول کروائی وہ بھی کہنے لگے نہیں یہ تعداد تو بہت غلط ہے جو فادر یہ کتاب پڑھاتے ہیں میں ان کو کہوں گا وہ کم از کم اِن اعداد کو تو درست کرلیں جو ہمارے پاس مستند ہیں مثلاً موصوف سوشل ورکر نے کاتھولک کلیسیاءکی آبادی ایک کروڑ15 ہزار اور اٹھائیس لکھی اور ریفرنس کاتھولک ڈائریکٹری کا دیا ہے جبکہ کاتھولک ڈائریکٹری 2010ءکے مطابق یہ تعداد 1151319 ہے یعنی گیارہ لاکھ اکیاون ہزار تین سو انیس ہے۔ اندازہ کیجئے کس سطح کی دروغ گوئی نجانے بدنیتی ہے یا لاعلمی میں کی جارہی ہے دونوں صورتوں میں اس کے اثرات کتنے خوف ناک ہوسکتے ہیں۔ اُن بیچاروں کو اس کا ادراک ہی نہیں ہوگا میں نے فادر عنایت کو کہہ دیا فادر نے یہ بات ان فادر صاحب کو کہہ دی جو یہ کتاب طالب علم فادروں کو پڑھاتے ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی اُس کے کچھ دن بعد میرا بچپن کا ایک دوست میرے پاس آیا اور کہنے لگا یار ہم اپنی سیاسی جماعت کے مسیحی نوجوانوں کے لئے کراچی کی سطح کا ایک اجلاس کروارہے ہیں تم وہاں مہمانِ مقرر کے طور پر آؤ اور نوجوانوں سے بات چیت کرو میں اپنے اس دوست کے بارے میں بتادوں گا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کا ورکر اور سرکاری ملازم بھی ہے۔ میں نے معذرت کرلی کہ بھائی میں ایسے سیاسی ماحول میں کیا بات کروں گا کچھ دنوں بعد پھر اس دوست سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیسا رہا تمہارا پروگرام؟ ”تو کہنے لگا بہت اچھا“‘

میں ازرہِ جستجو پوچھا کون تھا مہمان مقرر؟ کہنے لگا ایک سابق مسیحی جج صاحب تھے۔
میں نے پوچھا کس موضوع پر انہوں نے بات کی؟
کہنے لگا پڑھے لکھے آدمی کو بلانے کا یہ فائدہ ہوا کہ بڑی کام کی بات بتائی انہوں نے (لہجہ ایسا تھا جیسے شکر ہے ،ہماری یوتھ تمہاری باتیں سننے سے بچ گئی)میں نے پھر پوچھا کیا تھی خاص کام کی بات؟ کہنے لگا کہ خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے بتایا حکومت ہماری یعنی مسیحیوں کی تعداد جان بوجھ کر کم بتاتی ہے جب کہ ہم ہیں دو ڈھائی کروڑ اس کا یہ علمی انکشاف سن کر میں چپ ہوگیا تھوڑی گپ شپ اور کچھ مشترکہ دوستوں کے بارے میں چغلیوں کے ایک سیشن کے بعد وہ چلا گیا اور مجھے کچھ دن پہلے فادر عنایت سے کی گئی اپنی بات چیت پھر یادآگئی اور ساتھ ہی اپنے معصوم دوست کی معصومیت پر ترس آیا کہ پچھلے تقریباً 30 سال سے سیاست میں کھجل خواری بلکہ کتے کھسی (کتوں کی خاندانی منصوبہ بندی) یہ کررہا ہے لوگوں سے رابطے ان کے ہیں لوگوں کی تعداد ان کے سیاسی شعبے کا خاص موضوع اور مسیحیوں کی پاکستان میں تعداد ان کو ایک سابق جج صاحب بتاکر گئے ہیں واری واری جائیں ان کی سیاست پر وہاں اس طرح کے اور بھی کئی سیاسی ورکر ہوں گے اور یہ بتاتے ہوئے کہ ہمیں بڑے کام کی بات بتائی اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ اس علمی انکشاف سے متاثر بھی بہت ہوا تھا اس کے بعد میں نے سوچا کہ اس پر کچھ علم تو حاصل کرنا چاہیے۔ میں نے سندھ کی سطح کے اپنے جاننے والے مسلم لیگ ن کے مسیحی سیاستدان کو فون کیا اور پوچھا یار یہ بتاؤ  تم ایک عرصے سے سیاست میں ہو اور اب تو اچھے خاصے سیاستی ہوچکے ہو بتاؤ  مسیحیوں کی آبادی پاکستان میں کتنی ہوگی کہنے لگا ڈیڑھ کروڑ تو ہوگی میں نے کہایہ حکومتی اعداد شمار کیوں 30، 35لاکھ بتاتے ہیں کہنے لگاتاکہ سیٹیں زیادہ نہ دینی پڑیں۔ دوسرا فون میں نے جماعت اسلامی کے سندھ کی سطح کے مسیحی سیاستدان کو کیا ،یہ ہی سوال اس سے پوچھا اس نے تھوڑا بڑھا کر لگ بھگ یہ ہی جواب دیا۔ اسلام آباد فون کرکے تحریک انصاف کے مسیحی راہنما سے پوچھا انہوں نے کہا مجھے صحیح پتہ نہیں، یورپ میں بیٹھے ہوئے اُن مسیحیوں سے پوچھا جو وہاں بیٹھ کر پاکستانی مسیحیوں کے حقوق کیلئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں اُن میں سے بھی کئی نے بڑھا چڑھا کر اور کئی نے کہا ہمیں پتہ نہیں ۔اس سروے میں کم از کم ایک کروڑ اور زیادہ سے زیادہ تین کروڑ کی تعداد سامنے آئی اور حیران کن بات یہ تھی کہ جو مسیحی سیاستدان کئی کئی سالوں سے حکومتی پارٹیوں میں تھے وہ بھی یہ ہی کہہ رہے تھے کہ یہ ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہے ہم ہیں بہت زیادہ لیکن ہماری تعدا دکم بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد میں نے کچھ سوشل ورکروں سے رابطہ کیا (جن کی تعداد پاکستانی مسیحیوں کی کُل تعداد سے بھی زیادہ ہے) ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا یا تھا تو وہ گلے شکوے کے ساتھ کہ ہم ہیں تو بہت زیادہ لیکن حکومت ہمیں کم بتاتی ہے مسیحیوں کے ان غم خوار چاہے مذہبی، سیاسی یا معاشرتی ہوں قومی و بین الاقوامی سطح پر جس طرح ان کی تعداد دِن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اتنی ہی یہ کمیونٹی معاشی و معاشرتی پستیوں میں زیادہ گرتی جارہی ہے یعنی صورتحال کچھ یوں ہے۔
پنجی پتر پنجاہ پوترے
اجے وی بابا گھاہ پیا کھوترے
ترجمہ: پچیس بیٹے اور پچاس پوتے ہونے کے باوجود بابا جی ابھی بھی گھاس کاٹ رہے ہیں۔
میں نے سوچا تھوڑی پڑتال تو کرنی چاہئے آخر ماجرہ کیا ہے؟ حقیقت کیا ہے زمینی حقائق تو بالکل اس تاثر کی نفی کرتے ہیں یعنی اگر اتنی آبادی ہے تو نظر کیوں نہیں آتی؟ مثلاً پورے پاکستان میں ایک دو یونین کونسل ایسی ہیں جہاں سے بغیر مسلمان ووٹروں کی حمایت کے مسیحی نمائندے منتخب ہوسکتے ہیں پھر اگر حقیقت یہ نہیں ہے تو تاثر کیوں یہ پھیلایا جاتا ہے اور انتہائی ذمہ دار (بظاہر) لوگ بھی کیوں اس تاثر کو پھیلانے میں پیش پیش ہیں اور تو اور پچھلے دنوں ایک مسیحی سیاسی پارٹی کا منشور دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس میں یہ لکھا تھا کہ ہم ڈھائی کروڑ کی اپنی آبادی کو تسلیم کروائیں گے اب جب میں نے جانچ پڑتال کا سوچا تو اس کے لئے تین طرح کے اعداد وشمار دستیاب تھے ان تینوں دستیاب اعدادوشمار کو ہم تین فارمولوں کا نام دیتے ہیں ۔
(۱) 1998ءکی مردم شماری کے اعدادوشمار پر مبنی فارمولا:
اِن اعدادوشمار کے مطابق ہماری جو آخری مردم شماری 1998ءمیں ہوئی ہے اس میں مسیحیوں کی تعداد 20,92000یعنی بیس لاکھ بانوے ہزار ہے۔ اب اس تعداد کو ہم پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح جوکہ جنوبی ایشیاءمیں سب سے زیادہ یعنی 1.95فیصد اس شرح فیصد کو 18سال کے حساب سے نکالیں تو اٹھارہ سال پہلے 20,92000یعنی بیس لاکھ بانوے ہزارکو اب 27,85,498 ہونا چاہئے۔
(۲) الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار پر مبنی فارمولا:
الیکشن کمیشن کے 2013ءکے الیکشن سے پہلے کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق مسیحی ووٹروں کی تعداد پاکستان بھر میں 12,40,000 (بارہ لاکھ چالیس ہزار ہے) اور پاکستان کے مجموعی ووٹروں کی تعداد 8,61,00000(آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ہے) جب کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی اس وقت آبادی 20,00000000 (بیس کروڑ) ہے اس حساب سے ووٹر آبادی کا 43% (تینتالیس فیصد) ہیں لہٰذا اسی فارمولے کی نسبت تناسب سے اگر ہم مسیحی ووٹروں کی دستیاب تعداد کے مطابق مسیحی آبادی کی تعداد نکالیں تو 2883720 (اٹھائیس لاکھ تیراسی ہزار سات سو بیس بنتا ہے)
(۳) کاتھولک ڈائریکٹری کا فارمولا:
کاتھولک ڈائریکٹری 2010ءکے مطابق پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد 1151319 (گیارہ لاکھ اکیاون ہزار تین سو اُنیس) ہے۔ اس طرح ہم آبادی بڑھنے کی شرح 1.95فیصد کو چھ سال کے حساب سے جمع تفریق کریں تو آج پاکستان میں کاتھولک مسیحیوں کی تعداد 1263572ہونی چاہئے ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے کاتھولک ہیں اتنے ہی پروٹسٹنٹ کے تمام فرقے ملاکر ہوں گے اس حساب سے اگر اس آبادی کو ڈبل کرلیا جائے تو پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد 2527144 (پچیس لاکھ ستائیس ہزار ایک سو چوالیس) ہونی چاہئے۔
اب اگر ان تینوں فارمولوں کی تعداد کو جمع کرکے تین پر تقسیم کرکے جوکہ 8119362 (اکیاسی لاکھ انیسں ہزار تین سو باسٹھ) بنتی ہے تین سے تقسیم کیا جائے تو جو اوسط نکلتا ہے وہ 2732121 (ستائیس لاکھ بتیس ہزار ایک سو اکیس نکلتا ہے)۔
اب اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 1998ءمیں جو مردم شماری ہوئی وہ حکومتی اہلکاروں نے جان بوجھ کر ہماری تعداد گھٹاکر پیش کی تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر حکومتی اہلکار اتنے ہی فرض شناس اور محنتی ہوں گے بغیر کسی ذاتی فائدے کے اتنی محنت سے اعدادوشمار میں ردوبدل کرسکتے ہوں تو پھر پچھلے اٹھارہ سال سے مردم شماری ہی نہ کروالیتے اور بظاہر اس میں حکومتِ پاکستان یا کسی اہلکار کا کوئی فائدہ نقصان بھی نظر نہیں آتا تو حکومت آخر یہ حرکت کیوں کرے گی۔
دوسرا جو الیکشن 2013ءمیں ووٹروں کی دستیاب تعداد کے اعدادوشمار ہیں وہ نادرا کے ڈیٹابیس سے لنک ہیں اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ مسیحیوں کی بڑی تعداد نادرا میں رجسٹرڈ ہے اور بظاہر ایسی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی کہ نادرا مسیحیوں کو رجسٹرڈکرنے میں کوئی حیل حُجت کرتا ہو پھر تہذیبی رسم و رواج میں بھی پاکستان کے کسی علاقے میں بھی مسیحیوں کے خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ نہ کروانے یا شناختی کارڈ نہ بنوانے کے شواہد نہیں ملتے لہٰذا لیکشن کمیشن اور نادرا کے یہ اعدادوشمار بظاہر ٹھیک ہی لگتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر کاتھولک ڈائریکٹری کے دستیاب اعدادوشمار ہیں اب یہ بات تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتی کہ کاتھولک چرچ کیوں اپنی تعداد گھٹا کر بتائے گا؟ اور حکومت کے بیانیے کو درست ثابت کرنے کے لئے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر اس تعداد کو کم ثابت کرے گا اور اپنے لوگوں کے خلاف سازش کرے گا۔
میں نہیں کہتا کہ جو تعداد میں نے اوپر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہی صحیح ہے اس میں پانچ دس فیصد کی غلطی بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو تعداد ہمارے لوگ بتاتے ہیں وہ ہی درست ہو لیکن اُس تعداد کو ثابت کرنے کے لئے اعدادوشمار کہاں ہیں یا وہ تعداد نظر کیوں نہیں آتی اور اگر یہ غلط بیانیہ ہے اور صرف ہماری لاعلمی، معصومیت اور کچھ لوگوں کی بدنیتی پر مبنی بیانیہ ہے تو پھر ہمیں یہ سوچنا ہوگا اس ملک کا مسیحی تاریخی طور پر ہی معاشی، معاشرتی، تہذیبی وتمدنی پستیوں کا شکار ہے اس طرح کے بیانیوں سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں کہ ہماری تو ریاست اور حکومت ہی ہمارے خلاف ہے اور وہ ہماری اتنی بڑی تعداد کو کم بناکر پیش کرتی ہے اب ہمارا نوجوان ترقی کیاخاک کرے گا جس کو ہم نے گھر سے یہ سبق دے کے نکالا ہے کہ تمہارے لئے اس معاشرے میں کوئی موقع نہیں وہ کیا مقابلہ کرے گا حالات کا معاشرتی رویوں کا گو کہ اس طرح کے بیانیے چند لوگوں کے مفاد پر مبنی ہوتے ہیں اور باقی لوگ اپنی معصومیت اور لاعلمی کی بدولت ان کو آگے بڑھاتے ہیں اور ایک بات اور جب ہم کسی خاص کمیونٹی کو ہر وقت یہ ہی سبق دیتے رہیں،کہ تمہارے ساتھ یہ زیادتی ہے، وہ زیادتی ہے اور یہ سارا سبق اس کو اس کی بھلائی کی آڑ میں دیا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ مسائل ہیں اور ان کو اُجاگر بھی کرنا چاہئے لیکن اُجاگر کرتے کرتے ان کو اتنا بھی بڑھا نہیں دینا چاہیے کہ جس کی بھلائی کی آڑ میں یہ کیا جارہا ہو وہ ذہنی طور پر ہی مفلوج ہوجائے۔ ہمارے حالات ویسے ہی بڑے مشکل ہیں، مسائل بہت ہیں اور اوپر سے ہمارے یہ بے تحاشا غم خوار نادان دوست اور ہم خود اپنی معاشی، سماجی، شعوری، تعلیمی تہذیبی حالت کو مزید خراب کرکے اپنی اجتماعی صورتِ حال کو اور بدتر کررہے ہیں بقول منیر نیازی:
کجھ اُنجھ وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سی
اب اس تعداد کے معاملے کو ہی لے لیں کیا تعداد سے زیادہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو رول ماڈل جوکہ پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے میں ہیں نہیں دکھانے چاہئیں؟ کیا اپنے نوجوان کو اس کی دھرتی سے نسبت کا قابلِ فخر سبق نہیں دینا چاہئے؟ کیا ہمیں اپنے نوجوان کو رُلیا برادرز، الفریڈ پرشاد اور اس طرح کے کئی آزادی ء ہند کے کرداروں سے متعارف کروانے کی ضرورت نہیں؟ اور انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہے تمہارے اجداد کا اپنے اس دیس کوغاصبوں سے چھڑانے میں کردار پھر کیا ہمیں قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے والے کرداروں دےوان بہا در ستا پر کا ش سنگھا المعروف ایس پی سنگھا،سی ۔ای گبن،ہیڈ ما سڑ فضل الٰہی،جوشو افضل الدین،چوہدری چندو لال، ایف ای چوہدری، ہیرا لال حیات، الفریڈ پرشاد، بینر بروا جیمز، ڈاکٹر جان متھائی، ڈبلیو سی بونرجی، سرہنری گڈنی، پوتھن جوزف، شام سندر سنگھ البرٹ، سر جوزف بر، بی جی ہارنی، رائے بہادر پانیئر سکورن، ڈاکٹر ایم اے ڈریگو، تھیوڈور فیلبوس، پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی، خواتین رہنما مسز ایس پی سنگھا، مسز کے ایل رلیا رام، ڈاکٹر اینی بسنت، راج کماری امرت کور، مس ٹھاکر داس، ڈاکٹر آرنی، مس منکت رائے، مسز اے ڈی جوزف اور اس طرح کے دیگر کئی اور کرداروں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت نہیں؟ اس کے بعد نوجوانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں؟کہ انہی حالات سے نکل کرجن کا واویلہ غیر حقیقت پسندانہ نسبت تناسب سے کیا جاتا ہے، تعمیرِپاکستان اور پاکستانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس،سموئیل مارٹن برق (ستارئہ پاکستان)،دلشاد نجم الدین (سابقہ آئی سندھ و بلوچستان)،عاشر عظیم، ذیشان لبھا مسیح،ڈاکٹر آئی ڈی شہباز،پروفیسر سلامت اختر،فادر عنایت برناڈ، ڈاکٹر فیروز، کنول نسرین ،انجم بھٹی ، شہباز چوہان، نذیر قیصر،رولینڈ ڈیسوزا،ایڈووکیٹ عمانویل ظفر،کو لن ڈےوڈ (مصور)،وائس متھائس (سابق ٹیسٹ کرکٹر)،موہنی حمید (براڈ کاسٹر)،آئرن پروین (گلوکارہ)،سلیم رضااور ایسے ہی ہزاروں کرداروں ، روشنی کے میناروں ، پاکستان اورپاکستانی معاشرے کے معماروں کو اپنی آنے والی نسلوں سے متعارف کروانے کی ضرورت نہیں؟ اس کے بعد دفاعِ پاکستان میں 86 شہداءحیدران کے چار ساتھیوں،سات ستارہ جرات ،تین تمغہء جرات، گیارہ تمغہء  بسالت، نو ستارہ بسالت، پانچ جرنیلوں، تقریباً بائیس بریگیڈیئروں اور افواجِ پاکستان کے ہر شعبے میں اعزازی شمشیر حاصل کرنے والے اس طرح کے قابلِ فخر کئی غازیوں اور وطن کے محافظ کرداروں اور روشنی کے میناروں کے ذریعے اپنے نوجوان کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ہے تمہارا شاندار ورثہ، لہٰذا اس معاشرے کو جانو، پہچانو اور اسے اپنا مانو اور اس معاشرے میں ان روشن مثالوں کی طرح ترقی کرو اورہاں مسائل ہیں اور وہ صرف تمہارے ساتھ نہیں بلکہ ہر کسی کے ساتھ ہیں۔

تقریباً اکیس کروڑ میں سے صرف دو تین فیصد اشرافیہ ہی سارے وسائل پر قابض ہے اور ان کی نظر میں کوئی مسیحی ہندو مسلمان سکھ پارسی نہیں اورہمارے مسائل ہی ان کے وسائل ہیں اور ہماری محرومیوں کو ایکسپلائٹ کرنا اُن کا پیشہ ہے۔ جسے میں نے اپنی واحد تُک بندی میں یوں بیان کرنے کی کوشش کی ہے:
میری قوم کی جو وجہ افلاس ہے
میری اشرافیہ کا وہ ذریعہ معاش ہے
اور ان معاشرتی پستیوں سے نکلنے کے لئے قابلِ فخر مثالوں (جو کہ ہمارے پاس بہت ہیں) اور پُرعزم حوصلوں کی ضرورت ہے نہ کہ ہروقت رونے دھونے کی جہاں ہماری ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ امتیازی قوانین یا معاشرتی رویئے ہیں وہیں ہماری ترقی میں رکاوٹ کی بڑی وجہ ہماری اپنی معاشرتی بیگانگی خود رحمی اور کہیں احساسِ کمتری اور کہیں احساسِ برتری کی بیماری بھی۔ لہٰذا ہمیں پہلے اس خطے کے مسیحیوں کی تاریخی معاشرتی، معاشی، مذہبی، تعلیمی پستیوں کا حقیقت پسندانہ اور حقائق و شواہد پر مبنی تجزیہ کرنا ہوگا اور پھر انھی معروضی حالات میں سے بہتری کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے نوجوان اور آنے والی نسلوں کو اُن کی اس دھرتی سے نسبت آزادیِ ہند قیام تعمیر و دفاعِ پاکستان میں اُن کے اجداد کے کردار کے ذریعے انھیں اس معاشرے میں اُن کی قابلِ فخر شناخت بتا کر انھیں ترقی کی نئی راہیں دکھانی ہوں گی اور رہ گئی آبادی کی درستی کی بات تو ہمارے سماجی، سیاسی،مذہبی راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی بساط کے مطابق لوگوں کو متعلقہ اداروں مثلاً نادرا میں رجسٹرڈ کروائیں جو کہ کوئی بڑا کام نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے لئے لکھی گئی اعظم معراج کی پندرہ کتب میں سے پہلی کتاب دھرتی جائے کیوں پرائے سے اقتباس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply