اُونر بِلٹ (OWNER BUILT)۔۔اعظم معراج

سو فیصد نہیں تو 90%اسٹیٹ ایجنٹ حضرات نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ لفظ سنا ہوگا اور یہ لفظ چاہے Buyerکی زبان سے نکلے یا Sellerکی زبان دونوں صورتوں میں یہ لفظ ادا کرنے والے اپنے اس Perceptionپر پکے ہوتے ہیں کہ اگر گھر خریدنا ہے تو Owner Builtورنہ نہیں اور بیچنے والا بھی اسی ذہنی کیفیت میں ہوتا ہے کہ گھر تو صرف Owner Builtہوتا ہے باقی توریت کے گھروندے۔ پچھلے ڈیڑھ سال مجھے ایک گھر بنانے کے عمل میں بنیادی ڈیزائنگ سے لے کر فنیشنگ کے عمل میں شریک رہنے سے اندازہ بلکہ تجربہ ہوا کہ ایک عام آدمی اس ذہنی کیفیت میں کب پہنچتا ہے۔

یہ کہانی ایسے شروع ہوتی ہے کہ جب کوئی گھر اپنے لےے ڈیزائن کیا جاتا ہے تو جو کام ٹھیکیدار حضرات اپنی مہارت اور کسی ڈرافٹ مین کی مدد سے بیس پچیس ہزار روپے میں کروالیتے ہیں آپ کو یار دوست مشورہ دیتے ہیں کہ یار آڑکیٹکٹ کے بغیر گھر مزیدار نہیں بنتا اور اگر آپ کو خود بھی غلط فہمی ہو کہ آپ کی حس لطیف (Aesthetic Sense)عام آدمی سے بہتر ہے لہٰذا آپ کو آرکیٹکٹ سے ضرور رجوع کرنا چاہےے تو پھر آپ تو گئے کام سے یعنی Owner Builtکے مسائل شروع ہو جائیں گے۔ بہت بڑے ناموں والے آرکیٹیکٹ پیسے اتنے مانگتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ اتنے پیسے کا 25% 30%تو میرے ٹوٹل بجٹ میں سے نکل جائے گا۔ درمیانے آرکیٹکٹ پر یار دوست اور آپ کی غلط فہمی آپ کو ٹھہرنے نہیں دیتی، مہینے ڈیڑھ کی خجل خواری کے بعد سے درمیانے یا نئے آرکیٹکٹ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ڈیڑھ مہینہ گزرچکا ہے ابھی صرف آرکیٹکٹ صاحب Planningکریں گے اور Space Managementکے کرتب دکھائیں گے تاثر یہ ہی دیا جائے گا کہ ایک شاہکار یا عجوبہ تخلیق کرنے میں ٹائم اور پیسے تو لگتے ہی ہیں۔ اگر آپ Determind(ڈھیٹ) ہیں تو دو تین مہینوں میں آپ Designفائنل کروالیں گے صرف Design۔ باقی آگے دیکھا جائے گا۔ لہٰذا پہلا مرحلہ جس میں سے پروفیشنل ٹھیکیدار کچھ دنوں اور بیس پچیس ہزار میں گزر جاتے ہیں Ownerصاحب دو تین مہینے بہت ساری خجل خواری اور لاکھوں روپوں میں سے گزرتا ہے لہٰذا ایک تکبر جنم لینا شروع ہوجاتا ہے کہ میں تو کوئی خاص چیز بنا رہا ہوں اس کے بعد اگر آپ خوش نصیب ہیں تو آپ کو اچھا ٹھیکیدار مل جائے گا ورنہ تو بہت برا بھی ہوسکتا ہے۔ خیر اچھا Averageسا ٹھیکیدار مل گیا۔ Owner Builtکے کمال شروع ہوگئے۔ سر بنیادوں میں سلفیٹ سیمنٹ ضروری ہے۔ ”بھئی ورنہ“؟ سر ہوتا تو نہیں لیکن احتیاط تو ضروری ہے اور پھر فرق بھی 30یا 40روپے کا ہے ایک بوری پر ”لگیں گی کتنی بوریاں“؟ یہ کوئی نہیں بتاتا خیر بنیادوں سے فارغ ہوئے تو 30یا 40روپے کا فرق ہزاروں یا لاکھوں کا فرق بن چکا ہوتا ہے۔ چنائی Masonaryہوگئی اسٹرکچرل ڈرائنگ کے لےے ٹھیکیدار کوس رہا ہے اور آرکیٹکٹ تجربہ یا شاہکار تخلیق کرنے کے چکر میں ٹائم لگا رہا ہے۔

خدا خدا کرکے یہ مرحلہ بھی حل ہوگیا۔ آرکیٹکٹ میری Slabتو 8انچ کی ہوتی ہے۔ لیکن یار سب لوگ تو پانچ یا چھ انچ کی ڈالتے ہیں ارے سر آپ میرے گھر کو ٹھیکیداروں کے گھروں سے ملا رہے ہیں۔ اچھا جی ٹھیک ہے 8انچ ہی ڈال لیجئے لہٰذا کافی سارا سیمنٹ اور سریا Steelبڑھ گیا۔ کوئی بات نہیں ٹھیکیدار کا گھر تھوڑی ہے Owner Builtہے۔
اور ہاں میں لینٹر لیول یعنی کھڑکیوں اور دروازوں کا اوپر والا لیول (Level)آٹھ فٹ پر رکھتا ہوں یار زیادہ تر گھر تو 7فٹ پر ہوتے ہیں ارے چھوڑےے وہ ٹھیکیداروں کے گھروں کو آپ کو کیا فرق پڑے گا بس ایک فٹ لکڑی بڑھ جائے گی وہ ایک فٹ بھی دن کی روشنی حاصل کرنے کے چکر میں کھڑکیوں کی تعداد کافی ہوچکی ہوتی ہے وہ ایک فٹ بھی لاکھوں نہیں تو کافی ہزاروں میں پڑے گی۔ لگانی بھی ٹیک ووڈ(Teak Wood)ہے۔ سر گھر روز روز تھوڑا ہی بنتے ہیں۔ اور ہاں چوکھٹ دو انچ یا اس سے اوپر ہونی چاہےے بیڈنگ بھی میں تین انچ کی مانگتا ہوں۔ جیسے تیسے ان مراحل سے نکلے۔ غلطی سے اگر آپ نے ماربل لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ نیچرل ہوتا ہے، ٹھنڈا ہوGracefulلگتا ہے اور پھر زیارت جیسا پتھر پوری دنیا میں نہیں پھر تو آپ گئے کام سے شریفانہ اور عقلمندانہ فیصلہ ٹائل لگائیں اور سکھ میں رہیں۔

اب آپ ماربل کی Selectionمیں نکلے پتا چلا زیارت وائٹ تو ملتا ہی نہیں جناب کالاشیڈ ملے گا اور خاصا مہنگا بھی۔ بہت دھکے کھانے کے بعد کسی نے صاف ستھرے Sampleدکھادےے ٹھیک ہے، معاملہ طے ہوگیا۔ ڈیلوری مہینے بعد مال آیا زمین آسمان کا فرق بھائی صاحب میں تو مہینے سے زیارت وائٹ کا انتظار کررہا ہوں نہیں سر تھوڑا بہت شیڈ تو آہی جاتا ہے۔ قدرتی چیز ہے بھئی پھر Sampleکیوں دیا تھا نہیں سر ملتا جلتا ہی ہوتا ہے دراصل کان بند ہے یہ ہی مال مل سکتا ہے۔ ٹھیکیدار صاحب کا مشورہ ہے کہ Sectionمت لگائےے گا وہ ٹھیکیدار لگاتے ہیں کیونکہ انھوں نے تو بیچنا ہوتا ہے۔ فرق کتنا ہے ڈبل سے زیادہ جب آپ پاک کالونی کی ایک ایک دکان اورنگی کی تقریباً ساری فیکٹریاں چھان چکے ہوتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہاں جی قدرتی چیز ہے، شیڈ تو آتا ہی ہے رگڑائی کے وقت پتا چلتا ہے کہ ٹھیکیدار کا مشورہ کہ موٹا ماربل ہی لگوائےے گا سیکشن Sectionاتنا اچھا نہیں ہوتا۔ نیتوں کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں لیکن موٹے ماربل کا مشورہ دینے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ٹھیکیدار کے پاس اگر بہت Skilledمستری نہ بھی ہوا تو رگڑائی میں فرق نکل جائے گا۔ یعنی آدھا وہ رگڑائی میں کاٹ لیں گے آپ کے پیسے اور خواری کا کیا فائدہ فنیشنگ شروع۔ ٹائل تو سر چائنا کے تو سوچےے گا بھی مت۔ ”یار اچھے بھلے تو ہیں“ لیکن سر پھر بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ آپ نے کونسا بیچنا ہے خود ہی رہنا ہے۔ فٹنگ(Fitting)تو Groheہی ہونی چاہےے بعد میں مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا بعد کے مسئلے کے ڈر سے کبھی کبھارتو آپ کو قرضہ بھی لینا پڑجاتا ہے۔ کرتے کراتے آپ Elevationپر پہنچ گئے آپ خود یا آرکیٹکٹ کی Recommendationپر آپ نے سوچ لیا کہ پتھر لگنا چاہےے بڑی Majestic Lookدیتا ہے تو پھر تو آپ کا کام ہوگیا۔ ایک تو اس کام کے کرنے والے بہت کم ہیں اور دوسرے جو ہیں وہ کم پڑھے لکھے اور زیادہ دوراندیش نہیں۔

لہٰذا میرے انداز ے کے مطابق ایک گھر میں کم از کم چار پتھر والے آپ سے پیسے مختلف حیلے بہانوں سے نکلوالیتے ہیں اور پھر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو ٹھیکیدار، آرکیٹکٹ اور مختلف قسم کے ٹیکنیکل لوگ آپ کو کہتے ہیں اور آپ کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں کہ جناب آپ تو اپنے لےے بنارہے ہیں یہ کوئی ٹھیکیدار کا گھر تھوڑی ہے یہ تو Owner Builtہے۔ لہٰذا بنیاد کے سلفیٹ سیمنٹ، آٹھ انچ کی سلیب مضبوط اسٹرکچر 3 یا 4انچ کی بیڈنگ آٹھ فٹ کی چوکھٹ، ٹھنڈا زیارت وائٹ، دن کی روشنی کے لےے بے تہاشا کھڑکیاں Elevationپر پتھر Groheکی فٹنگTeak Wood آرکیٹکچرل ڈیزائن اور اس طرح کے بہت سارے لوازمات کے بعد آپ جب حساب کتاب کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ Owner Builtآپ کو کم از کم 10سے پندرہ لاکھ روپے (صرف 500گز کے مکان پر زیادہ لگ چکا ہے) اور آپ خبطی الگ ہوچکے ہیں اور خدانہ کرے کہ آپ کو ایسا اشاہکار بیچنے کی نوبت آئے۔ لہٰذا پھر آپ ہر کسی کو اور خاص کر اسٹیٹ ایجنٹ کو یہ ضرور بتاتے ہیں کہ یہ Owner Builtہے کوئی ٹھیکدار کا گھر تھوڑی ہے۔ شاہکار ہے یا عجوبہ یہ تو خریدار فیصلہ کرتا ہے۔ اس تجربے سے گزرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ Owner Builtکہنے والا Clientخبطی کم اور مظلوم زیادہ ہوتا ہے۔

اعظم معراج کی کتاب پاکستان رئیل اسٹیٹ مارکیٹ ماضی حال و مستقبل سے اقتباس 

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply