پاکستانیو! شیطان کی معرفت ضروری ہے۔۔ثاقب اکبر

قرآن حکیم نے شیطان کو انسانوں کا کھلا دشمن قرار دیا ہے۔ یہ وہی کھلا دشمن ہے، جو انسان کو جنت جیسے مقام سے دھوکہ دے کر نکال دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے، جو اپنے آپ کو انسان کا خیر خواہ ظاہر کرتا ہے اور پھر انسان کے لیے بلندیوں سے پستیوں کی طرف اتر جانے کا باعث بنتا ہے۔ شیطان کی فرمانبرداری انسان کے لیے بہت ہولناک اور روح فرسا مصائب لے کر آتی ہے۔ شیطان جب انسان کا ایسا کھلا اور ظالم دشمن ہے تو کیا اس کی معرفت ضروری نہیں؟ اس شیطان کی معرفت کے بغیر انسان اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ یہ ایسا بدبخت ہے، جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ انسان کے راستے میں بیٹھ جائے گا اور اسے صحیح راستے سے گمراہ کرے گا، یہاں تک کہ انسان بدبختی کے گڑھے میں جا گرے۔ یہ ایسا خناس ہے جو اللہ کے حضور بھی جسارت اور تکبر سے باز نہیں آتا۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ انسان کے خلاف سازش، انسان کی آزاد زندگی میں مداخلت اور تکبر شیطان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔

شیطان کی سر توڑ کوشش رہتی ہے کہ بندہ خدا کی فرمانبرداری کو ترک کر دے اور جس طرف وہ انسان کو دعوت دے، وہ اس طرف چل پڑے۔ حالانکہ شیطان کا راستہ تباہی، رسوائی اور بربادی کا راستہ ہے۔ شیطان کا راستہ اللہ کے غضب کا راستہ ہے، چونکہ جب اللہ کے راستے سے انسان بھٹک جاتا ہے تو پھر اس کے لیے تباہی، رسوائی اور گمراہی ہی باقی رہ جاتی ہے۔ ’’شیطان‘‘ کا معنی ہے ضرر، تکلیف اور اذیت دینے والا وجود۔ بس ایسا وجود جو انسان کے لیے باعث ضرر ہو، وہ شیطان ہے۔ اگر کم ضرر پہنچاتا ہے تو آپ اسے چھوٹا شیطان کہہ سکتے ہیں۔ ہم اپنی زبان میں اسے شیطونگڑا بھی کہتے ہیں۔ جیسے بلی کے بچے کو بلونگڑا کہتے ہیں اور جو سب سے زیادہ ضرر رساں وجود ہو، اسے شیطان اعظم، شیطان اکبر یا شیطان بزرگ کہا جاسکتا ہے۔ اب یہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی انسانیت کے لیے سب سے زیادہ ضرر رساں وجود کون سا ہے۔

’’ابلیس‘‘ کا لفظ بھی شیطان کے لیے بولا جاتا ہے۔ ابلیس کا معنی ہے دھوکے باز اور فریب کار۔ جو لباس بدل بدل کر اور بھیس بدل بدل کر دھوکے دیتا ہو۔ یہ شیطان کی بنیادی صفت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنے آپ کو ظاہر کچھ کرتا ہے اور باطن میں اس کی خباثت اور انسان سے دشمنی ہوتی ہے۔ شیطان چونکہ فریب کار اور دھوکے باز ہے، اس لیے اسے پہچاننا ضروری ہے۔ شیطان سے غفلت انسان کے لیے ہولناک اور تباہ کن ہے۔ انسان جب اپنے آپ کو شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ اور مامون سمجھنے لگتا ہے تو وہی موقع ہوتا ہے کہ جب وہ انسان کو فریب دیتا ہے۔ انسان کے اندر لالچ اور حرص کی منفی جبلت کو ابھار کر اسے راہ حق سے منحرف کر دیتا ہے۔ انسان سے کہتا ہے کہ میری بات مانو گے تو اقتدار کے مزے لوٹو گے۔ دانا و بینا انسان وہ ہے، جو ہر لباس اور ہر ڈھنگ میں شیطان کو پہچان لے۔ بقول بہادر شاہ ظفر:
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل

امام خمینیؒ نے بہت پہلے امریکہ کو ’’شیطان بزرگ‘‘ یعنی ’’سب سے بڑا شیطان‘‘ کا لقب دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ واقعاً امام خمینیؒ کی نگاہ کیسی عمیق تھی، اللہ نے انھیں خاص بصیرت سے نوازا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ امریکہ جس چیز پر اور جس شخص سے راضی ہو، سمجھو وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ٹھیک نہیں اور امریکہ جس شخص یا جس چیز سے ناخوش ہو، سمجھو کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بھلا ہے۔ آپ گذشتہ ایک سو برس کی انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ انسانیت کے لیے کیسی کیسی وحشت آفریں اذیتیں امریکہ کے وجود سے پھوٹی ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے ایٹم بم برسا کر لمحوں میں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو برباد کر دیا اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے ویتنام کے باشندوں پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کے سارے مظالم کا اصلی محرک اور سرپرست ہے۔

یہ امریکہ ہی ہے، جو مسلمانوں بلکہ سب انسانوں میں نفاق کے بیج بوتا ہے۔ یہ امریکہ ہے جو دنیا میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار بیچتا ہے اور جس کی معیشت کا سب سے زیادہ انحصار ہتھیار بیچنے پر ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہتھیار انسانوں کے لیے خیر کی خبر نہیں لاتے بلکہ تباہی و بربادی ہی کا ذریعہ ہیں۔ ہتھیار بیچنے کے لیے امریکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ وہ مختلف ملکوں کے درمیان اختلاف اور نفاق کے بیج بوتا رہے۔ یہ امریکہ ہے، جس نے ایران کے خلاف اذیت ناک پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے افغانستان میں تباہی اور بربادی کی ایسی المناک داستانیں رقم کی ہیں، جن کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس کے پاس دنیا میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور جس نے یہ ہتھیار استعمال بھی کر رکھے ہیں۔

یہی امریکہ عراق پر یہ کہہ کر چڑھ دوڑا کہ اس کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، پھر اس نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی، لیکن یہ ہتھیار نہ مل سکے اور جس کا اعتراف بعد میں خود امریکہ نے کیا، لیکن اس اعتراف کے ہونے تک عراق میں پندرہ لاکھ سے زیادہ انسان امریکہ کی انسان دوستی کا نشانہ بن چکے تھے۔ امریکہ نے پوری کوشش کی کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دے۔ دنیا میں اس وقت تمام دہشتگرد تنظیمیں امریکہ ہی کی پیدا کردہ ہے اور خود امریکی عہدیدار اس کا اعتراف کرچکے ہیں اور امریکہ ہی ہے، جو دنیا میں ان تنظیموں کو دہشتگرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ دھوکا اور فریب اور کس کو کہتے ہیں، ضرر اور ایذا اور کس کو کہتے ہیں؟ امریکہ ہی فلسطینیوں کو مسلسل اسیر اور غلام رکھنے کا سبب ہے۔ امریکی آشیر باد پر ہی بھارت کشمیریوں پر زندگی کو اجیرن کیے ہوئے ہے۔ امریکہ ہی کی باتوں میں آکر اور نیٹو کی رکنیت کے لیے آرزو کرکے یوکرین آج مصیبتوں سے گزر رہا ہے۔ لیبیا کی تباہی ہو یا شام کی، یمن کی ویرانی ہو یا ملت بحرین کی پریشانی، سب کے پیچھے آپ کو امریکہ ہی دکھائی دے گا۔

ہماری اپنی پاکستان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ منافقت روا رکھی ہے۔ پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔ خودداری سے جینے کی آرزو کرنے والوں کو راستے سے ہٹانا امریکہ کا پرانا حربہ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ایک جوہری طاقت بنانے کا ارادہ کیا، انھیں اس ارادے ہی کے جرم میں مختلف ہتھکنڈوں اور سازشوں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پاکستان کے عوام ہی نہیں، پاکستان کی عدلیہ کے بھی نہایت اہم اراکین یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ بھٹو کی موت دراصل عدالتی قتل تھا۔ پاکستان کو آج بھی امریکہ نے ایف اے ٹی ایف کی بندشوں میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے، جو پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں حائل ہے۔ سی پیک کی بھی امریکہ کھلی مخالفت کرچکا ہے۔ اب یہ امریکہ ہی ہے جو روس کے ساتھ پاکستان کے روابط کو برداشت نہیں کر پا رہا۔

امریکہ نے پاکستان کو دھمکیاں دے کر دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا ایندھن بنایا اور پاکستان کے اسّی ہزار فوجیوں اور شہریوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے کا باعث بنا۔ پاکستان کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پہنچا۔ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ کی ’’دوستی‘‘ ہے۔ دوستی کا لفظ تو ایک فریب ہے۔ جب امریکہ یہ کہے کہ یا آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن، اگر آپ نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم آپ کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے تو پھر یہ دوستی، دوستی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے غلامی ہے۔ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد امریکہ پھر یہ چاہتا تھا کہ پاکستان اسے اپنی سرزمین پر کھل کھیلنے کی اجازت دے، لیکن ہمارے غیرت مند وزیراعظم نے واشگاف میں الفاظ میں کہہ دیا ’’Absolutely Not‘‘۔

مغرور اور متکبر امریکہ نے اسے اپنی توہین جانا، لہذا اس نے ضروری سمجھا کہ اس ’’نافرمان‘‘ کو ہٹا دیا جائے اور پاکستان میں موجود ’’فرمانبرداروں‘‘ کو خدمت پرمامور کر دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے جو راستہ اختیار کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اسے سازش کہنا چاہیں تو سازش کہہ لیں، اسے دھونس اور دھاندلی کہنا چاہیے تو دھونس اور دھاندلی کہہ لیں اور اسے مداخلت کہنا چاہیں تو مداخلت کہہ لیں۔ البتہ سازش، مداخلت اور دھونس دھاندلی سے لائی ہوئی حکومت کو ہی آج پاکستانی عوام امپورٹڈ حکومت کہہ رہے ہیں۔ آج پاکستان کے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ امام خمینیؒ نے امریکہ کو کیوں شیطان بزرگ کہا تھا، لیکن اہل پاکستان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ہے کہ امریکہ کی یہ معرفت عارضی اور وقتی نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکی ماہیت یہی رہے گی، یہاں تک کہ امریکہ کا بے رحم سرمایہ داری نظام اپنے اختتام کو پہنچے اور امریکہ میں اس کے حقیقی عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی عوام کی بیداری، جرأت اور استقامت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ خبردار کرنا ضروری ہے کہ امریکہ کو کبھی بھی اپنا دوست نہ سمجھیں اور وہ کبھی ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔ اس کی ماہیت ہی ظالمانہ، متکبرانہ، شیطانی اور ابلیسی ہے۔ اس ماہیت میں جوہری تبدیلی امریکی عوام کی بیداری، قیام اور جرأت مندانہ استقامت ہی سے ظہور پذیر ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ نہ فقط اس ملک میں عوام کی ایک نمائندہ حکومت قائم ہوسکے بلکہ آئندہ بھی پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا میں خوشحالی، ترقی اور خود داری کا نمونہ بن سکے اور دنیا میں اس شعور، خود داری اور حقیقی آزادی کا پیامبر بن سکے۔ روزوں کے مہینوں میں آئیں! اس شیطان کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے اور اس کے ہرکاروں کو بحیرہ عرب میں پھینک دیں اور عزت و افتخار کے راستے پر گامزن ہو جائیں/بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply