ایک سماج کیلئے بڑے ترین خطرات میں سے ایک، پولرائزیشن (تقطیب) ہوتی ہے۔ معاشرے جنگوں سے، بحرانوں سے اور معاشی دباؤ سے نکل آتے ہیں لیکن اگر تقسیم کا شکار ہو جائیں تو یہ خوفناک اشارہ ہوتا ہے۔
پاکستان ایک نسل کا ملک نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ حد تک تقسیم تو اسکی بنیاد میں ہے۔ لیکن مذہب اور حب الوطنی نے اسکو جوڑ رکھا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مذہب وہ طاقت نہیں رہا کیونکہ ہم مسلکی تقسیم کا شدت سے شکار ہو گئے۔ ایک ہی خاندان کے لوگ سنی شیعہ بلکہ کون سا سُنی اور کون سا شیعہ کے سوال پہ شادی بیاہ اور تعلقات رکھنے یا ختم کرنے پہ آ گئے۔ سو باقی فقط حب وطن بچا جو ہمیں آپس میں جوڑنے کی اہم طاقت ہے۔
حالیہ دور میں یہ پولرائزیشن اپنی شدت پہ آ گئی ہے۔ سیاسی تقسیم نے مذہبی تقسیم سے بھی زیادہ شدت اختیار کر لی اور سیاسی جماعتیں باقاعدہ کلٹ کی صورت اختیار کرنے لگ پڑیں۔ پچھلے کچھ ہفتے میں یہ پولرائزیشن اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ اگر اسکا رستہ نہ روکا گیا، فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ اتنا بڑا نقصان کرے گی جو کوئی دشمن بھی کبھی نہ کر سکا۔
آج حب ِوطن کا معیار آپکی سیاسی وابستگی ہے، جو دوسرے فریق کی پسند کی ہونی چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں ہے تو آپ غدار ہیں۔ سوشل میڈیا کا اُسترا کل تک فقط کچوکے لگاتا تھا مگر آج تلوار بن کر جڑیں کاٹنے لگ گیا ہے۔ دوست آپس میں یوں برسر پیکار ہیں کہ دشمن بھی اس سے زیادہ حیا رکھ جاتے ہوں گے۔ ملک، اسکے ادارے، ذاتی تعلقات یہ سب ثانوی ہو چکا، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ میری پسند کا سیاسی نظریہ رکھتے ہیں یا نہیں؟
بلیم گیم شروع کی جائے تو بہت لمبی بات ہے اور مزید پولرائزیشن کا باعث۔ سچ تو یہ ہے کہ سب ہی کا کچھ نا کچھ حصہ ہے۔ لیکن اس وقت ضرورت ہے کہ انٹیلیجنشیا فوراً، ہنگامی بنیادوں پہ اس پولرائزیشن پہ توجہ کرے، سماج میں بدلاؤ اور درجہ حرارت میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے۔ سیاسی جماعتیں خود اپنے پیروکاروں کو سمجھائیں کہ مخالف نظریہ غداری یا ملک دشمنی نہیں ہوتا۔ اگر یہ آگ فورا نہ بجھائی گئی تو شاید خود چمن کو کھا جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں