صفا اور مروہ کے بلند ہوتے سائے
حطیم سے آتی سنجوگ آوازیں
دارالندوہ کی شمال مغربی دیوار سے ٹکراتی ماں جائے سانجھ ڈالے بد فطرت آتش زاد کے لیے باعث ماتم ہیں ۔
کاش میرا تخیّل اس قوت کا حامل ہوتا کہ میں اس آتش زاد ماں جائے بد شریک کو کہہ سکتا
وائے ناکامی ہائے ناکامی
اے بدفطرت سُپن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

چراغ بھی ایسا ہے کہ جس کی روشنی سے تمام عالم جگمگانے والا ہے
حسن کا پرچھاواں بھی تو قابل رشک ہوتا ہے
جس پیشانی پہ سراج منیر چمکے ،اس عبداللہ کا حسن بھی تو صحرا کی رات میں مہکتے چہکتے ماہ تمام سا ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دے
عبداللہ کی پیشانی امین ہے اس چراغ کی،
کون ہے جو نظر پھیر لے؟
کہتے ہیں کتاب کا علم رکھنے والی ایک عورت نے عبداللہ کو دیکھا،ہاتھ تھاما اور کہنے لگی ہبل نے جو منظور کیے وہی 100 اونٹ دینے کو تیار ہوں۔
سُن تو عبداللہ
میں صدائے زلیخا ہوں
اے عبداللہ
“حی تا لک”
وے سوہنیا میرے ول تک”
یارو ۔
سماج کو اخلاقیات کی تہذیب دینے والا ابھی آیا نہیں ،ہر طرف آتش زاد بد فطرت کا راج ہے، کہنے والے کہتے ہیں اعلانیہ مکہ کے باشندے کعبہ پہ نصب ہبل دیوتا کے سامنے شراب و شباب کی محفلیں سجاتے!
عزت غیرت کا یہ عالم تھا کہ مرد خود اپنی منکوحہ کو کسی ذہین، بہادر اور شاعر کے پاس بھیجتا تاکہ ذہین و فطین بچہ پائے،اور کوئی عورت ایک ہی رات میں 10 مردوں کو بلاتی، ہر ایک سے عیش و عشرت پاتی اور حاملہ ہونے کے بعد بچے کا باپ جسے چاہے چُن لیتی۔
ایسے عیش و عشرت والے ماحول میں آتش زاد بد فطرت کہاں رکنے والا تھا ۔۔
عورت کی رگوں میں لہو دوڑتے بولا
عبداللہ
“حی تا لک”
اور جناب عبداللہ نے وہی معاذاللہ والا یوسفی طمانچہ آج پھر بد فطرت کے منہ پہ دے مارا ہے جسکی بازگشت عزیز مصر کے بند کمروں سے نکلتی آج تک گونج رہی ہے!
ہائے ناکامی وائے ناکامی ۔۔
ڈوبتے سورج کی شفق لالیوں میں بدقماش حسرتوں کا جنازہ لیے بحرہ قلزم کی لہروں میں آنسو ملاتا تخت بچھاتا کروٹ پہ کروٹ لے رہا ہے ۔
وہ جانتا ہے کہ
آنے والا دن اس کے لیے امتحان ہے جس میں وہ مسلسل ناکام ہو رہا ہے
سورج کی کرنیں پھیل چکی ہیں ،عبدالمطلب کے گھرانے سے حارث عبداللہ کو تھامے عبدالمطلب کی رعیت میں یثرب کی طرف رواں دواں ہیں، دن پتھریلے رستوں میں کہیں گم ہو چکا ہے اور اب صحرا کی رات ہے ۔
قطار در قطار اونٹ اور انکے آگے گاتا ہوا ہدی خواں
کیا دیکھنے والا نظارہ ہے
عبداللہ کی مسکراہٹیں
ملن گیتوں کے لیے ساز بنی احد سے گذرتی بدر سے لہر در لہر ہوا کے دوش پر ۔۔۔
یثرب کے مشرقی محلہ بنو زہرہ کے آنگن میں بیٹھی دلہن کے لیے کس قدر باعث ِ مسرت ہیں!
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں