• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آخر کب سمجھیں گے پاکستانی حکمران؟(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

آخر کب سمجھیں گے پاکستانی حکمران؟(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

جب بھارت میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت جنتا پارٹی کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی تو اندارا گاندھی کے خلاف الزامات کا ایک پٹارہ کھول کر عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔اسی دوران مصالحت کاروں نے اندرا گاندھی کو مشورہ دیا کہ اگر وہ کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلی جائے تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔ بقول مشہور صنعت کار اور سوشلسٹ لیڈرکمل مرارکا ، جومصالحت کاروں کی ٹیم میں شامل تھے، جب وہ اس معاہدہ کی تفصیل لیکر وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس پہنچے تو انہوں نے پوری تفصیل سننے کے بعد ان کو خوب کوسا۔ انہوں نے ٹیم سے پوچھا کہ آخر وہ کیسے اندرا گاندھی کو سیاست سے بے دخل کرسکتے ہیں؟ڈیسائی کا کہنا تھا کہ عدالت اندرا گاندھی کے دیگر امور کو دیکھنے کی اہل ہے، مگروہ خود صرف سیاسی میدان میں گاندھی کا مقابلہ کرینگے۔ اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی وسط مدتی انتخابات میں اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا رائو کی مدت حکومت میں یعنی 1991ء سے 1996ء تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچینج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کیلئے پارلیمان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔ مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔ سیکورٹی کے پیش نظر ان کیلئے خصوصی عدالت کی نشست وگیان بھون میں لگتی تھی، جس کو کئی بار میں نے کور کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار وزیر اعظم ہائوس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر نرسمہا رائو کی مدت حکومت کے دوران کے دو چیف جسٹس صاحبان سے میں نے پوچھا تھا کہ آخر انہوں نے نرسمہا رائو کو بے لگام کیوں چھوڑا تھا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ’’وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس ، دبائوسے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اسکو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اسکی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکرٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اسکے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو ، جس کی وجہ سے عوام نے اسکو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟ ‘‘ دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کیلئے قربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا رائو کو اراکین پارلیمان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔ دارصل بھارت میں مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم ، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔اسی طرح جولائی 2000کو اسوقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں کسی تقریب میں چیف جسٹس کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا، تو اسٹیج سے اترتے ہی ان کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا فون آیا، جس نے ان سے فوراً ہی استعفیٰ طلب کیا۔ وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ شکایت بجا ہی سہی ، حکومت چیف جسٹس کے ساتھ کوئی محا ذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ رام جیٹھ ملانی کا شمار خود بھی ملک کے جید قانون دانوں میں کیا جاتا تھا۔ دسمبر 1996کو جب کولکتہ کے نواح میں پاکستان انڈیا فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کا ایک کنونشن منعقد ہوا، تو اسمیں شرکت کیلئے تقریباً 200کے قریب پاکستانی مندوبین وارد ہوگئے تھے۔ جن میں معروف کالم نویس مرحوم عطاء الرحمان بھی تھے۔ان کی معیت میں باراسات ضلع میں گھومتے ہوئے ایک دیہات میں ایک مسجد پر نظر پڑی۔ چونکہ نماز کا وقت بھی ہورہا تھا، اندر جاکر اور فراغت کے بعد عطا ء الرحمان صاحب نے امام صاحب کے پاس جاکر اپنا تعار ف کرایا اور ان سے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں؟ امام صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ بس آپ سے(پاکستان سے) بہتر ہیں۔ آپ کی طرح مسجدوں یا امام باڑوں میں ایک دوسر ے کو قتل نہیں کرتے ہیں۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد امام صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔ انہوں نے کہا’’افغانستان ، ترکی یا عرب ممالک ، اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں ، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اسکی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے جاکر کہو، کہ ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان ، اس خطے کی اشد ضرورت ہے۔ــ‘‘ معلوم نہیں کہ عطاء الرحمان صاحب نے واپس جاکر دور افتادہ دیہات کے اس امام کا پیغام پاکستانی حکمرانوں تک پہنچایا کہ نہیں۔پاکستان میں وقتاً فوقتاً جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر کشمیری لیڈر سید علی گیلانی بھی تاسف کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ نومبر 1996 میں جب بے نظیر بھٹوکو برطرف کیا گیا، تو وہ ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ اس دوران ان کے سیکرٹری نے ان کو بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین صاحب لائن پر ہیں۔ انہوں نے فون اٹھاتے ہی حکومت کی بر طرفی کے حوالے سے قاضی صاحب کو خوب سنایا۔ ‘‘ فون کے بعد ان کے سیکرٹری نے ان کو بتایاکہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ، آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں۔ تو انہوں نے کہاکہ ان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔‘‘ بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے معروف دلت لیڈر اور دستورساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راوٗ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اسکو موثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اسی تقریر میں انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھے سے اچھا آئین بھی اگر نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اسکو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔آخر پاکستانی حکمران اور عوام کب اس نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply