• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حمید اختر سے مل کر دل خوش ہوتا تھا اور ذہن روشن۔۔۔اسد مفتی

حمید اختر سے مل کر دل خوش ہوتا تھا اور ذہن روشن۔۔۔اسد مفتی

نظریے اور عقیدے اس بات پر معترض ہیں کہ انہیں صرف مانا جائے جبکہ ادب اور صحافت کا مطالعہ کرنے کے لیے اسے جانا،سمجھنا اور محسوس کرنا بنیادی تقاضے ہیں،صحافت کا راست ہ ایک خوش گزار اور منزل اس سے بھی دشوار ترین منزل ہے،ہم نے جو دیکھا،سمجھا،بھوگا ہوگا اور محسوس کیا،اسے کتنی کامیابی کے ساتھ تک پہنچایا ہے۔حمید اختر نے یہی فعل کردکھایا ہے۔زندگی کی طوالت اہم نہیں،زندگی کا معیار بھی ضروری ہے۔حمید اختر زندہ ملے تھے تو بھی زندہ تھے۔کومے میں تھے جب بھی زندہ تھے۔اور اب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں تو بھی زندہ ہیں۔
میں حمید اختر صاحب سے بہت قریب بھی رہا ہوں۔اور “دور” بھی رہ گیا۔۔۔یہ ان قربتوں کے چند لمحات اور ماہ و سال کا بیان یا بیانیہ ہے،جب ہماری آنکھوں کو ابھی اجالوں کی تھوڑی بہت پہچان یوں سامنے رہے جیسے کتاب کھلی ہو۔اور یہ بظاہر سادہ بات اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوجاتی۔

حمید اختر زندگی بھر اپنی کمٹمنٹ کے ساتھ جیے اور کم سنی کے باوجود کالم نگاری،سیکولرازم اور ترقی پسندی کے فروغ کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ دور دراز کا سفر بھی کرتے رہے۔
حمید صاحب کا انتقال محض صحافت کا نقصان نہیں،سیکولرازم کا نقصان ہے۔انسان دوستی کا نقصان ہے۔وہ ایسا شخص نہیں تھا،جوبغیر زندہ رہے موت کی آغوش میں چلا گیا ہو،وہ ایک اعلیٰ مقاصد کے لیے زندہ رہے اور ان کا ہدف ایسا تھا کہ اس نے دنیا و مافیہاکو حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی درمیان سے نکال دیا تھا۔ذات کی نفی اور کمٹ منٹ انہیں سیاسی تجزیوں اور تبصروں کی جرات بھی عطا کرتی تھیں،جو آج کے خوشامدانہ دور میں مشکل سے ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مصنف:اسد مفتی

حمید اختر کے انتقال کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ واقعہ ایک عہد کے خاتمے کے مترادف ہے،تو یہ جملہ رسمی سالگے گا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسندوں کے اولیں قافلے کے سپہ سالاروں نے جس عہد کا آغاز کیا تھا،ان کے انتقال سے اختتام کو پہنچ گیا،ایک ہمدرد کی آواز خاموش ہوگیہ،ایک زندگی سے معمور کالم مرگیا۔ہمہ خوبیوں اور اصاف سے متعصف حمید اختر ہمہ مقاصد اور جدوجہد کے اہم ترین شارح،شاہد تھے۔وہ سرخ سویرے کے راہرو ہی نہیں بلکہ راہ بھی تھے،جو اپنے لیے نہیں اوروں کے لیے جینے کو ترجیح دیتے تھے،اور احساس جگاتے تھیکہ زندگی کا عزم اور حوصلہ تختہ دار پر بھی رقص کرتا ہے۔۔۔جیل کی کال کوٹھڑی میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔
حمید اختر ایک فلمساز بھی تھے،وہ ان فلمسازوں میں سے ایک ہیں،جنہوں نے زمانے کے تغیرات کو محسوس کیا اور اسے سمجھا اور اپنی فلموں (سُکھ کا سپنا اور پرائی آگ) میں اسے برتا بھی۔میں ان کی فلم پرائی آگ میں معاون اعلیٰ ہدایتکار تھا۔میں نے بارہا یہ دیکھا کہ انہوں نے اصولوں کو کبھی صلیب پر چڑھنے نہیں دیا۔

حمید اختر نے اس وقت آنکھیں کھولیں جب ہندوستان میں جدوجہد آزادی کا جذبہ نقطہ عروج پر تھا،اور اس جگہ آنکھیں کھولیں جسے بھگت سنکھ کا پنجاب کہتے ہیں،جسے آج بھی حریت کے متوالوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔وہ تقسیم ہند کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ قرار دیتے تھے،ان کے خیال میں 1937سے 1947 کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ مذہبی جنگ نہیں تھی۔بلکہ اقتدار کے حصول کی جنگ تھی،جس کے لیے سبھی اپنے اپنے مفاد کے لیے لڑ رہے تھے۔ان کے لیے دیس،وطن اور مذہب صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ تھا،اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ اقتدار کی اس جنگ میں ہماری اقدار کا جنازہ نکل گیاہے۔وہ اکثر کہتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تعمیر کی سوچ بے بنیاد ہے۔اور ایسا ملک متحد نہیں رہ سکتا۔ملک ی تمام طاقت اس کے سیکولر کردار میں پوشیدہ ہوتی ہے۔سیکولرازم کے وسیلے سے ہی جمہوری طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں،جو کسی ملک کی ترقی و کامرانی اور مضبوطی کی سمت میں مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔

حمید اختر جانتے تھے کہ صھافت عوام کے دم خم سے ہی زندہ رہ سکتی ہے۔اگر اسے عوام اور عوامی مسائل سے دور کردیا گیا۔تو اس دشت کی سیاحی میں چاہے جتنے سنگ ِ میل سر کردئیے جائیں،نتیجہ صفر ہی رہے گا،یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے کالموں میں سماجی اور عصری مسائل جس طرح پیش کرتے تھے،کسی اور صحافی کے پاس نظر نہیں آتا۔انہوں نے صحافت میں بھی ترقی پسندی کو رمز و ایمائے کی دولت سے مالا مال کیا۔حمید اختر نے کبھی دنیاوی مناصب اور شہرت کی عام مقبولیت کا تعاقب نہیں کیا،ان کی علمی و صحافتی زندگی اور شخصی زندگی دونوں میں ایک رکھ رکھاؤ ملتا ہے۔ان کا اٹھ جانا،ترقی پسندی،صحافت اورمعاشرے کا بہت بڑا نقصان ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر فن کا رکے فن کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور شخصیت کی طرف کم،حالانکہ فنکار کی اپنی شخصیت ہی اس کے فن کو سمجھنے کے لیے بہترین کسوٹی ہوتی ہے،صحافت(بالخصوص اردو صھافت) موجودہ زمانے میں ضمیر اور ضرورت کے درمیان کشاکشی کے مسئلے سے دوچار ہے۔خوشامد،چاپلوسی اور غیبت کے ذریعے روزی کمانے والوں کا صحافت کا میلہ سا لگا ہوا ہے۔جبکہ صحافت کا سب سے بڑا مقصد سچ کی تشہیر و تبلیغ ہے لیکن دنیا کے ایک “عالمی بازار” میں تبدیل ہونے کی ضرب صحافت پر بھی پڑی ہے،لیکن حمید اختر کی زندگی اور شخصیت کا سب سے حسین اور خوبصورت پہلو یہ تھا کہ انہوں نے صحافت کو مقدس اور باوقار بنا دیا،اسے بازار کی بد اخلاقی اور بلیک میلنگ سے بچایا،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ۸۸سالہ زندگی کو وہ ہمہ گیریت عطا کی ہے کہ پاکستان نے اسے تاریخ میں رقم کرلیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ایک انسان تھے،ان کو فرشتہ ثابت کرنا مقصود نہیں ہے(اور ایسا وہ خود بھی نہیں چاہتے تھے)لیکن یہ شک و شبہ سے بالا تر ہے اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں،کہ ان میں جتنی خوبیاں تھیں وہ کسی انسان میں کم ہی جمع ہوتی ہیں۔میرے اوران کے بہت سے دوست احباب مشترکہ تھے،اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے دوستوں سے کس قدر محبت کرتے تھے،اس سلسلے میں کئی واقعات بھالئے نہیں بھولتے،جنہیں میں آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں،لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ نجابت،شرافت،نیک نیتی اور احترام آدمیت کی وراثت رکھتے تھے،شرعی احکام کے پابند نہیں تھے،لیکن خمیر میں نیکی بھری پڑی تھی۔میں نے حمید اختر کی فعال زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ آدمی نظر بدل سکتا ہے،نظریہ نہیں۔۔
زیست کا مجھ پہ یہ حق ہے کہ میں جینا سیکھوں
موت کا کیا ہے،جب آئے گی تو مرجاؤں گا
آج جب میں یادوں کو سمیٹنے اور کاغذ پر منتقل کرنے بیٹھا ہوں تو دل سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ وہ ایک مثالی شخص تھے،وہ نہ صرف یاد آتے رہیں گے،بلکہ فیض صاحب کے ساتھ رہ رہ کر یہ کہنے پر مجبور کرتے رہیں گے۔۔۔
جنہیں جرمِ وشق پہ ناز تھا،وہ گنہگار چلے گئے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply