ہندوستان کا خاتمہ۔۔محمد خان چوہدری

اگست 1947 کی 14 اور15 تاریخ کی شب دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت جس کا نام ہندوستان تھا،صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔۔

دو ریاستیں بھارت اور پاکستان ،ہندو اور مسلم کی بنیاد پر معرض وجود میں آ گئیں ۔

اس واردات کے ذمہ دار تین فریق تھے۔۔
تاج برطانیہ کی حکومت کے نمائندہ ماؤنٹ بیٹن،کانگریس پارٹی کے سرکردہ جواہر لعل نہرو،اور مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے سربراہ لیاقت علی خان۔مہاتما موہن داس گاندھی اور قائد اعظم صرف “فگر ہیڈ” تھے۔کیونکہ عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد حالات جس تیز روی کے ساتھ بدل رہے تھے،اور ان سے کانگریس اور مسلم لیگ کے مفاد پسند عناصر پارٹیوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے،قائداعظم خرابی صحت کی وجہ سے اور گاندھی جی بد دل ہو کر تقریباً کنارہ کش ہو چکے تھے،بظاہر دونوں قیادت کرتے نظر آتے لیکن میز کے نیچے ہونے والے انتظامی امور پہ  ان کی گرفت کمزور ہو چکی تھی۔

برطانوی سرکار کی دلچسپی کسی بھی طریقے سے اقتدار سے جان چھڑانے  میں تھی،نہرو اور لیاقت کی نظر وزیراعظم بننے پہ  تھی۔

ان حالات میں دو نئی  ریاستوں کے قیام اور وسائل کی تقسیم سے آگے سوچنے کا نہ ادراک تھا،اور نہ ہی ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور لیاقت علی خان کی ضرورت،اور جب دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی شروع ہوئی۔۔اور دونوں طرف کے لوگ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گاجر مولیوں کی طرح کٹنے لگے،تو ان کو ہر تین فریق نے ان کے حال پہ  چھوڑ کے کشمیر کا تنازعہ کھڑا کر لیا۔

تب سے لے کر اب تک بھارت اور پاکستان کی ہر اسٹیبلشمنٹ عوام کو نقل مکانی سے جڑے مظالم کی آگاہی سے روکنے،اور اپنی مذموم کوتاہ اندیش سوچ کی وجہ سے بدانتظامی کو چھپانے کے لیے
بھارت اور پاکستان کے عوام کے بیچ نفرت کے الاؤ جلاۓ رکھتی ہے۔

ایک ضمنی سوال ہے  کہ کیا RAW اور ISI کے اہلکار وزٹ ویزہ لے کر دوسرے   ملک میں جائیں گے ؟۔۔
ہر گز نہیں ۔
ایجنسیوں کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں،تو بھارت اور پاکستان میں عام لوگوں کے لیے  ویزہ کی اتنی سختی کیوں ؟

کیونکہ اگر دونوں طرف کے لوگوں کا میل جول ہو گا تو پرانے حقائق سامنے آئیں گے، اور ریاستی اداروں کے پھیلاۓ جھوٹ کے پردے چاک ہوں گے۔
اور جب بھارت کے لوگوں کو سمجھ آۓ گی کہ پاکستان بھارت پر قبضہ نہیں  کرے گا اور پاکستان والوں کو بھی یہ بات معلوم ہو گی کہ بھارت ان کو نوالہ بنا کے نہیں  کھاۓ گا،تو وہ ایک دوسرے سے ڈرنا چھوڑ دیں گے،اور یہ دونوں حکومتوں کے حق میں نہیں،کہ عوام مسلسل خوف کی گرفت سے آزاد ہو جائیں ۔

 برطانوی مفادات !

برطانوی استعمار کی تین خصوصیات اہم تھیں،ہندوستان میں وہ تاجر بن کے داخل ہوۓ،مقامی سیاسی حالات کو سمجھا،مغلوں کی بد عنوانیوں کا فائدہ اٹھایا،ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کی،مقامی صنعت و حرفت کو سمجھا اور اپنی صنعتی ضروریات کے مطابق اس کو ڈھالا۔

مقامی رسم و رواج روایات، مذہبی عقائد،اور معاشرتی رویے سمجھے اور ان کو ہی اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے  استعمال کیا،تاج برطانیہ کی حکومت میں دیگر نوآبادیاں بھی تھیں،لیکن  فوج سے لے برطانیہ میں لیبر تک افرادی قوت سب سے زیادہ ہندوستان کی تھی،صنعتی خاص طور پر ٹیکسٹائل کا خام مال یہاں سے جاتا تھا۔اور صنعتی پیداوار کی بڑی منڈی بھی ہندوستان تھا،انہوں نے اسے  چھوڑنے کی صورت میں بھی یہاں اپنے پنجے گاڑے رکھنے کا پروگرام  بنایا  ہو ا تھا۔
جس پر جنگ آزادی کے بعد بہت زیادہ کام کیا گیا۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے تک جب یہ واضح ہو گیا کہ اب بر صغیر میں مزید ڈائریکٹ حکومت کرنا ممکن نہیں ،تو انہوں نےاسے تقسیم کر کے اپنے زیرِ  دست رکھنے کا بندوبست کیا ہوا تھا،مسلمان عمائدین اگرچہ ان کے مطیع اور حلیف تھے لیکن قابل بھروسہ نہ تھے، ان کے ممکنہ کسی اتحاد کو روکنے کے لیے  دو بنیادی کام کیے  گئے ۔۔

ایک تو انہیں مذہبی بنیاد پر دیگر تمام ہندوستانیوں کے مقابل اقلیت تسلیم کروایا گیا،دوسرے ان کے اندر فرقہ بندی، اور نسلی تفریق بھی پیدا کر دی گئی ۔
یعنی ہندو جو ذات پات کے نظام کے سخت پیروکار تھے،نا  صرف ان کو متحد رکھا گیا بلکہ سکھ، بدھ مت، اور دیگر کو بھی بڑے ہندو سماج کا حصہ بنایا گیا، اور مسلمانوں میں نسل کی بنیاد پر ذات پات ، جیسے سید، راجپوت مغل و دیگر کو رواج دیا گیا، شعیہ سنی احمدی اور دیگر فرقوں کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی گئی ،ان کی تقریبات کو لائسنس دینے کا نظام بنایا گیا،اس سب کے باوجود کانگریس تقسیم کے خلاف تھی،تو ماؤنٹ بیٹن نے نہرو خاندان کے ساتھ اپنی فیملی کی قربت کو بروئے کار لا کے انہیں اس امر سے ڈرایا کہ مسلمان کثیر الاولاد ہوتے ہیں،ان کی آبادی چند سالوں میں بہت بڑھ جاۓ گی،سابق حکمران ہیں،اب بھی اکثر صوبے ان کے پاس ہیں جہاں ان کی اکثریت بھی نہیں ،اور ہندو سماج سے دیگر ذاتوں کے لوگ علیحدہ ہو کے ان سے مل گئے ،تو ہندوستان میں ایک تو ہندو اقلیت بن جائیں گے دوسرے مسلمان دوبارہ حکمران بن سکتے ہیں۔جمہوریت ان کا طرز حکومت نہیں ،وہ خلافت، امارت یا بادشاہت قائم کر سکتے ہیں،سابقہ بادشاہوں کی اولاد میں سے کسی کو بادشاہ بنا دیں گے۔

اس کا اتنا خاطر خواہ اثر ہوا کہ کانگریس کے اہم رہنما نہ صرف ملک کی تقسیم پر راضی ہو گئے ،بلکہ ماؤنٹ بیٹن کے گورنر جنرل ہوتے ہوۓ ہی اور فوری، اس پر عمل درآمد پہ  تیار ہو گئے ،انگریز مشرق بعید اور تیل سے مالامال مشرق وسطی کے درمیان ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جس کے پاس اسلام کی سند بھی ہو اور وہ مغربی استعمار کی محتاج بھی رہے،اور بوقت ضرورت کام آوے۔

جیسے افغان وار میں پہلے روس کے خلاف اور پھر امریکہ کے حلیف بن کے ہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

بھارت کی ٹریجڈی!

انگریزوں نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا بھی بھر ہور استحصال کیا، مغلوں کے دور میں اکبر کے دین الہی نافذ کرنے کے با وصف ,عالمگیر تک ہندوؤں کی رسومات دیگر سے ہم آہنگ ہو چکی تھیں
عالمگیر نے جو فتویٰ کا ڈول ڈالا اس سے مسلمان ہی متاثر ہوۓ،1857 تک ہندوستان میں مذہبی تشدد یا تفرقہ بازی نہیں تھی ،اسی لیے  اس جنگ آزادی میں لوگ بلا تفریق مذہب شریک ہوۓ،
جس کو کچلنے کے بعد انگریزوں نے مذہبی تقسیم کو ہوا دینی شروع کی،گاؤ ماتا کی اصطلاح کی ترویج کی گئی،بھگوان، اوتار اور ہندو مذہب کے وہ سارے نشان جو اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز کر سکتے تھے ان کی سرکاری سرپرستی میں تشہیر کا بندوبست مختلف تہواروں پر تعطیل اور دیگر طریقوں سے کیا گیا،مسجد اور مندر کے آداب کے جھگڑے پیدا کیے  گئے ،تقسیم کے وقت ہندؤ آبادی کو یہ باور کرا دیا گیا،کہ مین لینڈ انڈیا سے سارے مسلمان ان کو دیے جانے والے ملک میں چلے جائیں گے۔اور بھارت میں خالص ہندو سماج ہی ہو گا،لیکن ان کو یہ نہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کو دیئے جانے والے علاقوں سے ہندو آبادی کا انخلا بھی ہو گا، اور اعلان آزادی سے پہلے بربادی شروع ہو گئی ،دونوں مجوزہ ریاستوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت شروع ہو گئی ،مغربی پاکستان بننے والے علاقے میں پشاور سے کراچی تک اور کوئٹہ سے سیالکوٹ تک  ہر گاؤں ،قصبہ، اور شہر کے پورے پورے محلے خالی ہو گئے ،لاکھوں لوگ بے گھر ہو کے بھارت پہنچے۔

بھارت میں انتقال اقتدار تو پرامن طریقے سے ہو گیا لیکن انتقال آبادی کی ناگہانی مصیبت گلے پڑ گئی،جس کا کوتاہ بیں قیادت نے سوچا بھی نہ تھا۔بھارتی حکومت بھارت میں لٹ پٹ کے آنے والوں کے مصائب بیان کرنے کے نہ کبھی قابل تھی اور نہ ہو گی،مغربی پاکستان کا علاقہ تو ہندوؤں اور غیر مسلموں سے تقریباً خالی ہو گیا۔

لیکن بھارت میں مقیم رہ جانے والے مسلمانوں کی تعداد اس وقت کے مغربی پاکستان کی کل آبادی سے کئی  گنا زیادہ تھی،جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک بھارت کے ہر ریاستی سربراہ کے لئے یہ ٹریجڈی مستقل موجود ہے۔کہ وہ بھارت کے عوام کو اس کا جواب دیں کہ ہندوستان کو ختم کر کے بھارت بنانے کا فائدہ ہندو قوم کے لئے  کیا ہوا؟

جب بھارت میں آج بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان آباد ہیں،تو اس قتل و غارت کا کیا جواز تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی دباؤ کے تحت ہر بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھنے پہ  مجبور ہے،اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کر کے بنگلہ دیش ہی بنایا اسے بھارت میں مدغم کرنے کی جرآت نہ کی ،بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم ہند سے جڑے اپنے جرم کا احساس اور اسے عوام کو بتانے سےمعذوری، اس بات پہ  مجبور کیے  رکھتی ہے کہ وہ ہر وقت پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے کے بھارتی عوام کو اس کے خلاف اور اس کے خوف میں مبتلا رکھے، ورنہ، سیاچین سے لے کر سر کریک تک بشمول جموں کشمیر کوئی  ایسا ایشو نہیں  جو جغرافیائی بنیاد پر حل نہ کیا جا سکے،لیکن اس کے لیے بھارتی حکمرانوں کو اپنے بھارتی عوام کے سامنے سچ بتانا ہو گا،جو وہ کبھی نہیں  کریں گے،سوائے  اس کے کہ عوام ان کے جھوٹ پروپیگنڈے کو مسترد کر کے خود حقیقت کا ادراک کریں اور آج کے نہرو مودی کو بندے دا پُتر بنا دیں!
ایں خوائش دیوانہ است،
قلندر!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply