• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنابِ وزیراعظم ! ریکارڈ درست کرلیجئے۔۔حیدر جاوید سید

جنابِ وزیراعظم ! ریکارڈ درست کرلیجئے۔۔حیدر جاوید سید

سرپرائز دینے والی تقریر میں چار پانچ باتیں ہوئیں۔ پہلی، حسب سابق اپنے سیاسی مخالفین کو بھگوڑا، ڈیزل، چیری بلاسم اور بیماری کے سستے بازاری القابوں سے یاد کیا۔ ثانیاً بلاول کو طعنہ دیا اپنے نانا کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھے ہو۔
ثالثاً کہا میرے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے۔ واسٹک کی اندرونی جیب سے ایک کاغذ چند بار نکالا اور لہراتے ہوئے کہا یہ وہ دھمکی آمیز خط ہے جو مجھے لکھا گیا۔ رابعً، ہمارے ارکان خریدے جارہے ہیں نیز امید ہے کہ مخالف ارکان کا بھی ’’ضمیر جاگ‘‘ جائے گا۔ پنجم، اپوزیشن کو باہر سے پیسہ ملا ہے۔
ٹیپ کا بند یہ تھا کہ ’’اس ملک میں ’’اندر موجود‘‘ لوگوں کی مدد سے ماضی میں حکومتیں تبدیل کی جاتی رہی ہیں۔ اس کا مصرعہ ثانی یہ تھا کہ چوروں کو چھوڑوں گا نہ ان کے ساتھ بیٹھوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آیئے ترتیب وار ’’امر بالمعروف‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے حکمران جماعت کے تاریخ ساز جلسہ میں وزیراعظم کے خطاب پر بات کرتے ہیں۔
اس جلسہ کے لئے سرکاری وسائل استعمال ہوئے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میانوالی میں جب سرکاری اہلکاروں کی نگرانی میں پبلک ٹرانسپورٹ پکڑنے کی ویڈیو بنائی گئی تو ایک افسر کے ایما پر سینئر مقامی صحافی عصمت اللہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ صحافیوں کے شدید احتجاج پر چند گھنٹوں بعد گرفتار صحافی کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب یہ خطرہ محسوس ہوا کہ صحافیوں کے احتجاج میں دوسرے طبقات بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
یہ ایک مثال ہے درجنوں مزید ہیں لیکن لکھنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ حکمران جماعت کے جلسہ کے لئے سرکاری مشینری اور وسائل پہلی بار استعمال نہیں ہوئے ہر حکمران جماعت یہی کرتی ہے۔
حکومتی جلسوں میں بلدیاتی ملازمین تک کی حاضری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کی پہلی برسی کسی کو اگر یاد ہو پنجاب حکومت کے حکم پر بلدیاتی ملازمین کے لئے ایک جوڑا سفید شلوار قمیص اور کالی ویسکوٹ فی کس کے حساب سے بلدیاتی اداروں کے فنڈ سے فراہم کئے گئے اور پھر یہ “معززین” سرکار کی فراہم کردہ بسوں وغیرہ پر سوار ہوکر اسلام آباد پہنچے تھے۔
اپنے مخالفین کے لئے انہوں نے روایتی دشنام طرازی اور بازاری جملے استعمال کئے یہ کوئی نئی بات نہیں ان کی سیاسی اٹھان اور ’’مقدس سایوں‘‘ میں ہوئی نشاط ثانیہ کا رزق یہی ہے۔
دنیا کی ہر چیز کو تاریخ و جغرافیہ سمیت جاننے کا دعویٰ کرنے والے صاحب تحمل و بردباری کے ساتھ گفتگو اور تقریر نہیں کرسکتے اس کی وجہ سمجھنے کے لئے کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ چند گھنٹے گزارلیجئے جس نے اوائل عمری سے کھیلوں کے میدان میں قدم رکھا ہو اور لگ بھگ 35سے 40سال کی عمر میں میدان سے باہر کا راستہ لیا ہو۔
بلاول اپنے نانا کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھا ہے یہ وہ طعنہ ہے جو درحقیقت ان لوگوں کا بیانیہ ہے جنہوں نے 2011ء اور اس کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی سے ہجرت کی اور تحریک انصاف میں چلے گئے۔ کیوں گئے اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ پھر بھی اگر ضرورت محسوس کریں تو اس بات پر غور کرلیجئے گا کہ ’’وحشی جٹ اور مولاجٹ‘‘ نامی فلموں نے پنجابی فلم انڈسٹری میں بزنس کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور ساتھ ہی پنجابی فلم سازی کے زوال کی بھی بنیاد رکھی۔
بھٹو صاحب کے خلاف سازشیں اسلامی کانفرنس کے انعقاد اورتیسری دنیا کے سیاسی فرنٹ کے قیام کے تصور پر شروع ہوگئی تھیں۔ ایٹمی پروگرام شروع کرنے اور فرانس سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ایٹمی ریکٹر کے حصول کے منصوبے نے امریکہ کو مشتعل کردیا۔
اس پر ستم یہ ہوا کہ ستمبر 1976ء میں امریکی سفیر اور سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ کی ذوالفقار علی بھٹو سے دو ملاقاتیں ناکام ہوگئیں۔ بھٹو نے جنوبی ایشیاء کی بدلتی صورتحال اور مستقبل میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر امریکی اتحادی بننے سے انکار کردیا۔ جواباً امریکی سرمائے اور ’’مقامی تعاون‘‘ سے پاکستان قومی اتحاد بنوایا گیا۔
اس قومی اتحاد کے لیڈروں نے بھٹو کے خلاف بدزبانیوں کے ریکارڈ توڑدیئے اور 5جولائی 1977ء کو لگنے والے مارشل لاء کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر بھٹو کو قتل کے ایک جعلی مقدمہ میں پھانسی چڑھوادیا۔
قومی اتحاد میں شامل بعض جماعتیں اگلے برسوں میں فوجی حکومت کے خلاف بننے والے سیایس اتحاد ایم آر ڈی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھیں۔
تب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو نے کراچی میں سردار شیر باز مزاری کی قیام گاہ پر لاجواب بات کی ان کا کہنا تھا کہ
’’جنرل ضیاء کی فسطائی حکومت کے مظالم سے عوام کو نجات دلانے کے لئے بھٹو مخالف قومی اتحاد کی بعض جماعتوں کا ہمارے ساتھ ایم آر ڈی میں بیٹھنا اور مل کر جدوجہد کرنے کا فیصلہ بذات خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ماضی میں ہمارے ان دوستوں سے غلطیاں ہوئیں “۔
ایک جملہ انہوں نے اور کہا وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے انہوں نے کہا تھا
’’پاکستان، جمہوریت اور عوام کے لئے سابق قومی اتحاد کی جماعتوں کے ساتھ مستقبل کے لئے بیٹھنے کا مقصد یہ اعلان کرنا ہے کہ سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ ہم جمہوریت کی بحالی کے لئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اس کے لئے ماضی اور ذاتی دکھوں کو بھولنا ہوگا‘‘۔
کچھ آگے بڑھتے ہیں، جنرل حمید گل کے بنوائے ہوئے سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے میڈیا سیل نے 1988ء میں محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میاں نوازشریف نے اپنے پہلے دو ادوار (بطور وزیراعظم) کے دوران بینظیر بھٹو ان کی جماعت اور محترمہ کے شوہر کے ساتھ کیا برتائو کیا، نتیجہ کیا نکلا؟ نوازشریف ایک معاہدہ کے عوض دس سال کی جلاوطنی لے کر جدہ چلے گئے۔
بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی سے روا رکھے گئے اپنے دو ادوار کے سلوک پر ان کا موقف تھا ’’اس سب کے لئے ہماری حکومت پر ریاستی محکموں کا دبائو رہا‘‘۔ صحافی سہیل وڑائچ کی ایک کتاب میں پوری تفصیل موجود ہے۔
میثاق جمہوریت ماضی کی نفرت بھری ریاستی آلہ کاری سے عبارت سیاست کے حساب کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا اعلامیہ تھا۔ اس سیاسی فہم کو کہ سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں محترمہ بینظیر بھٹو پھر سے زندگی بخشی کیوں یہ بات جناب عمران نہیں سمجھ سکتے۔
بھٹو کو پھانسی چڑھوانے والی جماعتوں کے ساتھ پہلا سیاسی اتحاد بناتے وقت بیگم نصرت بھٹو نے مزاری ہائوس میں جو گفتگو کی تھی کاش وہ ہمارے تعلیمی اور سیاسی نصاب کا حصہ ہوتی۔
خیر یہ عمران خان اور ان کے لاڈلوں کے سمجھنے کی باتیں نہیں کیونکہ وہ سیاسی نظریہ پر سیاست نہیں کرتے بلکہ نفرت کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔
وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے ویسکوٹ کی جیب سے کاغذ نکالے اور لہراے، لیکن اس دھمکی آمیز خط کی حقیقت بارے ولسن سنٹر کے ایسوسی ایٹ اور ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل مکگلمین کی 2عدد ٹیوٹس ٹیوٹر پر دستیاب ہیں۔
مختصراً یہ کہ امریکی کانگریس کے ایکٹ کے تحت قائم اس ادارے سے دو ہفتے قبل کسی دھمکی آمیز خط کے وجود اور اپوزیشن کو سی آئی اے یا اس کے ذیلی ادارے کی طرف سے عمران خان کے خلاف فنڈنگ کی تردید کردی گئی تھی۔
پھر آج کے دور میں خط لکھنے کی ضرورت کیا۔ مشرف کو کسی نے خط لکھا تھا؟ جی نہیں وہ ایک ٹیلیفون کال پر زمین بوس ہوگئے تھے۔
ہماری رائے میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو غلط معلومات اور جعلی خط پر جذباتی کرکے اپنی تحقیر کا بدلہ تو لے لیا ہے لیکن یہ جعلی خط ریاست کے گلے پڑجائے گا۔
مکرر عرض ہے کہ مکگلمین کا کہنا تھا کہ 2پاکستانی وزراء نے جو دستاویزات پیش کی ہیں (یہی جن کا ذکر عمران خان نے کیا) وہ جعلی ہیں اور یہ کہ ان میں سے ایک خط کا متن تبدیل شدہ ہے۔ تبدیل شدہ یعنی کوئی خط آیا مگر جدید ٹیکنالوجی سے اس کا متن تبدیل کیا گیا۔
کون کرسکتا ہے وزارت خارجہ کے علاوہ؟ اس سوال پر غور کیجئے۔
آخری بات حکمران جماعت کے لوگ اپوزیشن کے ساتھ جائیں تو ضمیر فروش، بکے ہوئے لوگ لیکن وزیراعظم جو اپنے جلسے میں اپوزیشن کے ارکان کو اپنا ضمیر جگانے کے لئے کہتے رہے کچھ اس بارے بھی ارشاد ہوجائے کہ یہ کیا ہے۔
کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی باقی باتیں اگلے کالم میں کر لیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply