• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میں حقوقِ نسواں کا مخالف ہوں ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں حقوقِ نسواں کا مخالف ہوں ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں حقوق کے سلسلے میں جنس کی تخصیص کا مخالف ہوں۔ مردوں اور عورتوں کے حقوق یکساں ہونے چاہییں لیکن کیا کبھی یہ یکساں تھے بھی؟ کیا کہیں یکساں ہیں بھی؟ کیا کبھی یکساں ہونگے بھی؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔ آپ نے میرے بارے میں شاید فورا” طے کر لیا ہو کہ میں لبرلزم کا مخالف ہوں یا مذہبی رجعت پسند ہوں یا شاید اذیت پسند انا پرست ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی مرد چاہے وہ سکنڈے نیویا کے ملکوں سے ہی کیوں نہ ہو لغوی معانی میں لبرل نہیں ہوتا۔ مرد چاہے ملحد ہی کیوں نہ ہو اپنی سرشت میں مرد ہوتا ہے ویسے ہی جیسے فیمینزم کی حمایت میں اپنی انگیائیں اتار کر نذر آتش کرنے والی عورتیں بھی اپنی سرشت میں عورتیں تھیں اور انہیں ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ یہی مختلف پن مخالف جنس کا حسن ہے وگرنہ مرد نما عورت (ٹام بوائے) میں کچھ اور طرح کے مرد ہی دلچسپی لیتے یا زنخے مردوں میں کچھ اور طرح کی عورتیں۔
مرد اور عورت صرف جسمانی طور پر ہی مختلف نہیں بلکہ ان کی کیمیا خاص طور پر دماغی کیمیا مختلف ہیں جو اس بارے میں نہیں جانتے وہ مردوں اور عورتوں کے دماغی اعمال پر ہونے والی جدید تحقیقات سے شناسا نہیں ہیں۔ ایک عام سی بات کو پیش نظر رکھیں کہ مرد جب شام کو کام سے آتا ہے تو اس کا سیروٹینین لیول بہت کم ہو چکا ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ کوئی فضول سا چینل لگائے یا فٹ بال کا میچ دیکھے یا زیادہ سے زیادہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر خاموشی کے ماحول میں چپ لیٹا رہے، اس کے برعکس فطری طور پر شام کو خواتین کا سیروٹینین لیول معراج پر ہوتا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کا شوہر یا دوست مرد ان کے ساتھ رومانی گفتگو کرے اور رومان پرستی کا مظاہرہ کرے۔ عورتیں اور مرد مادر سری نظام میں بھی یکساں حیثیت کے حامل نہیں تھے ورنہ اس نظام کو مادر سری نہ کہا جاتا ویسے ہی جیسے گذشتہ کئی ہزار سال سے جاری نظام کو پدر سری اس لیے کہا جاتا ہے کہ مرد بالا دست ہے۔
اگرچہ مادر سری عہد اور اس کے بعد پدر سری عہد میں ایک عرصے تک جمہوریت کا تصور نہیں تھا لیکن اجتماعیت کا تصور تھا اور سماجی فیصلوں میں اس سے کام بھی لیا جاتا تھا چنانچہ تب وہی جمہوری رویہ تھا، یوں جمہوری طریقے سے کسی کو بھی بالا دستی کا اختیار دیا جانا ایک بات ہے مگر بالادست رویے کو زور زبردستی اپنانا اور پھر اس کا غلط استعمال اور وہ بھی دیدہ دلیری سے اور حق سمجھ کر کرنا غیر انسانی ہے۔
بہت شدو مد کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی بات کرنا یا 8 مارچ کو عورتوں کے حقوق کا عالمی دن قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے عورتوں کے سارے حق غصب ہیں یا وہ کینسر کے مریضوں اور معذوروں کی طرح معاشرے کا کوئی ایسا مختلف و مریض حصہ ہیں جن کو اختصاصی حقوق دیے جانے چاہیییں۔ عورت اسی طرح انسان ہے جیسے مرد اور مرد بھی اسی طرح انسان ہیں جیسے عورتیں چنانچہ سب کے انسانی حقوق یکساں ہونے چاہییں۔
جسے عورتوں کے حقوق کا بل کہا جا رہا ہے وہ درحقیقت عورتوں پر تشدد کیے جانے کے خلاف بل ہے۔ مولوی فضل الرحمٰن ( وہ جب اس بل کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ مولانا کی سطح سے اتر کر مولوی کے قدمچے پر اتر آتے ہیں) کی سربراہی میں اس بل کی مخالفت کے لیے متحد ہونے والے مولوی اور مولوی نما عام لوگ صرف اس لیے اس کی مخالفت کر رہے ہیں کہ عورت کو مرد کے خلاف شکایت کرنے کا ایک اور حق مل جائے گا۔ اس بل سے پہلے بھی عورت کسی مرد کے خلاف چاہے وہ شوہر تھا یا بھائی، باپ تھا یا جنوائی شکایت کر سکتی تھیں مگر اس نئے حق شکایت سے مرد کے خلاف سماجی اقدام کیے جانے کا حق مل جائے گا یوں مرد کی بالادستی کی محراب کمزور پڑتی دکھائی دینے لگی ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں میں اوّل تو مرد اپنی بالا دستی سے رضاکارانہ طور پر ہاتھ اٹھا چکا ہے اور اگر کوئی ایسا کرنے سے انکاری ہوتا ہے تو پڑھی لکھی باروزگار خاتون کا زور بازو اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مسئلہ کم پڑھے لکھے لوگوں یا ان پڑھ لوگوں کا ہے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جن کی سوچ پر آج بھی جی ہاں آج بھی جب میڈیا بہت کچھ دکھلاتا ہے، مولیوں کی سوچ کا اثر ہے، یہی وجہ ہے کہ مولوی اس معاملے کو لے اڑنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ تاہم یاد رہے اگر ایسی کوئی تحریک چلی تو اس کے خلاف عورتوں کے حق میں ایک تحریک ضرور چلے گی جس میں پیپلز پارٹی کے اولیں عہد کی طرح گھروں کی عورتیں ایک طرف ہونگی اور مرد دوسری طرف۔ مولوی حضرات انجانے میں ایک ایسی پولرائزیشن کو ہوا دینے لگے ہیں جو رجعت پسند سوچ کی محراب کی ایک ڈاٹ کو تو کم از کم ڈھیلا کر دے گی جسے گرانے کے لیے کم از کم منجنیق درکار نہیں ہوگی۔
عورتیں نہ تو آپ کے بچوں کی دیکھ بھال و پرورش سے ہاتھ اٹھا رہی ہیں، نہ وہ گھر گھرہستی سے منہ موڑ رہی ہیں وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ ان کے مرد اپنے ہاتھ کو اپنے پہلو کے ساتھ رکھنا سیکھیں، اپنی زبان کو تلوے سے چپکائے رکھنا بہتر جانیں اور شام کو اگر بور ہیں بھی تو ہنسی کے دو بول لیں، وہ بھی تو سالہا سال سے ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول کا آپ کے ہاتھ کی گرفت میں رہنا برداشت کرتی آ رہی ہیں۔
میں عورتوں کے حقوق کا مخالف ہوں لیکن ریموٹ کنٹرول سے گرفت ہٹانے کا ، بازو کو پہلو کے ساتھ رکھنے کا، زبان کو بوجہ یا مصلحتا” ہی سہی تالو سے چپکائے رکھنے کا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی کے دو بول بولنے کا مخالف نہیں ہوں۔ آپ بھی ایسا ہی کریں تب نہ تو آپ عورتوں کے خلاف تشدد سے متعلق بل کے مخالف ہونگے اور نہ ہی آپ کو مولیوں کے ساتھ اس کے خلاف سڑک پر نکلنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ آپ کو پکا ہوا کھانا بھی ملے گا، دھلے ہوئے کپڑے بھی ملیں گے، ہنستا کھیلتا گھر بھی ملے گا اور یقین کیجیے ریموٹ کنٹرول پر ڈھیلی ڈھالی گرفت بھی آپ کی ہی رہے گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply