بالآخر تھر دیکھ لیا( 1)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

کئی سال پہلے، شکار پور سندھ میں اپنے مہربان دوست رحیم بخش جعفری سے کہا کہ میں نے آج تک بلوچستان نہیں دیکھا۔ وہ بولے ابھی دکھا لاتے ہیں پھر وہ مجھے سندھ کی سرحد سے پار بلوچستان کے ایک شہر لے گئے جہاں ان کے ایک دوست نے وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری بہترین ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔
اسی طرح 2019 میں میں نے اپنے ایک اور سندھی دوست حسین سومرو سے تقاضہ کیا کہ مجھے تھر کا علاقہ دکھائے۔ وہ خاص طور پر حیدرآباد سے آیا اور مجھے کراچی سے لے کے چلا مگر شہر سے نکلتے ہی میرا نزلہ شدید ہو گیا اور حیدر آباد ان کے گھر پہنچتے پہنچتے مجھے ہلکا بخار بھی ہو گیا۔
مجھے چونکہ چند روز بعد بھائی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہونا تھا اس لیے احتیاطا” جانا ملتوی کر دیا کہ پھر کبھی جائیں گے۔ اس کے بعد پہلے کورونا سے احتیاط نے نکلنے نہ دیا پھر میں ماسکو چلا گیا۔
اس بار آنے سے پہلے میں سومرو کو تو مطلع نہ کر پایا البتہ جعفری کو لکھا کہ میں پہنچ رہا ہوں، مجھے اگر تھر نہیں تو کوئٹہ دکھانے لے جائے۔ وہ بوجوہ نہ آ سکے اور حسین اپنے کاموں میں الجھا تھر روانگی کو ٹالتا رہا۔ چونکہ ایک دوست کوئٹہ میں ایک اعلی عہدے پر مامور ہیں اور انہوں نے فون پر یہ بھی کہا کہ آ جائیں مگر اکیلے اور دس گھنٹے کے سفر کی ہمت نہ کر پایا
مایوس ہو کر گذشتہ پیر یا منگل کے روز سرائیکی وسیب کو روانگی کا عہد کیے ہوئےتھا کہ گذشتہ اتوار کو ایک اور دوست عابد چنا کچھ اور دوستوں کے ہمراہ ملنے تشریف لے آئے۔ جب میں نے تھر نہ دیکھنے کے دکھ کا ذکر کیا تو بولے کہ یہ کام ہمیں ہی کرنا ہوگا۔
ان کے ساتھ ان کے دوست ظفر خواجہ بھی تھے جن سے انہوں نے مجھے جمعہ کے روز تھر لے جانے کو کہا۔ وہ سرکاری افسر ہیں پھر بھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالنے کی انہوں نے ہامی بھر لی۔
یوں وہ جمعہ کے روز میرے کہنے پر بعد از نماز جمعہ اپنی کار پر تشریف لائے اور ہم روانہ ہو گئے۔
چنا صاحب نے شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کی تلقین کی تھی جس کا اعادہ بعد کے دو روز میں ظفر خواجہ نے بھی کیا تھا مگر میں عجلت میں بھول گیا مگر شکر ہے کوئی پانچ کلومیٹر کے بعد ظفر نے پوچھا تو مجھے یاد آیا کہ بھول آیا ہوں، خیر لوٹے اور اپنے پاکستان اوریجن کارڈ کے علاوہ چھوٹے بھائی کا اوریجنل شناختی کارڈ بھی ساتھ لے لیا۔ سڑک بہت اچھی تھی۔ ہم نے بدین کے باہر رک کے چائے پی اور روانہ ہوئے۔ آگے کچھ سڑک خراب آئی تو ظفر کو شک ہوا کہ یہ وہ سڑک نہیں۔ کسی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک پل کی تعمیر کے دوران بھاری مشینری لائے جانے کی وجہ سے سڑک کا تھوڑا سا حصہ خراب ہوا ہے۔
آگے سارے راستے نہ کوئی گھر یا جھونپڑی موجود پائی اور نہ ہی ہماری کار کے علاوہ کوئی اور گاڑی دکھائی دی۔ اوپر سے فون کے سگنل بالکل بند۔ تھوڑی دیر کو میں گھبرایا بھی کہ کار چاہے نئی ہے لیکن اگر کوئی خرابی ہو جائے تو اس ویرانے میں کیا کریں گے۔
ہم آٹھ بجے کی بجائے کوئی پونے نو بجے مٹھی پہنچے۔ راستے میں میرے لیے ایک ہی چیز مختلف تھی وہ ہندوانہ ناموں کی دکانیں جیسے دلیپ ہریانہ سٹور، پرکاش میڈیکل سٹور وغیرہ۔
عابد چنا ہمارے استقبال کو موجود تھے۔ ان کے ساتھ نوجوان عباس فقیر تھے جن سے متعلق ظفر بتا چکے تھے کہ عابد صاحب نے گلوکار عباس فقیر کے ہاں عشائیہ رکھا ہے جس کے بعد عباس آپ کے لیے گائیں گے۔
ہمیں عباس کی فلور میٹرس اور ایر کنڈیشنر سے مجہز بیٹھک میں لے جایا گیا۔ جہاں میں نے اپنے مہم پر جانے کی خاطر پہننے اور اتارنے میں دشوار جوتے اتار کے کچھ استراحت کی پھر باتھ روم کا پوچھا، مجھے چپلیاں دی گئیں اور ہم سیڑھیاں چڑھ گئے۔ ایک بڑے اور ہوادار کمرے میں دسترخوان پر کھانا چنا جا رہا تھا۔
میں نے صاف ستھرے کموڈ والے باتھ روم میں جا کے مثانہ ہلکا کیا۔ ٹونٹی سے نکلتے پانی اور نئے صابن سے ہاتھ دھوئے مگر لگتا تھا کہ صابن کی چکنائی ویسلین بن گئی ہو۔ خیر نکلا تو عابد چنا کی این جی او سوکار فاونڈیشن کے چند اہلکار کمرے کے سامنے صحن میں کھڑے تھے ۔ تعارف کروایا گیا کہ یہ ہیں گلاب جو مینیجر ہیں ان کے چہرے پر مسکان منجمد تھی۔ یہ ہیں نند لال اکاؤنٹنٹ جو سنجیدگی اور افسردگی کی مجسم تصویر تھے اور یہ ہیں شبینہ ہماری سوشل کنسلٹنٹ جو خوش گرفتار اور خوش اخلاق خاتون تھیں ۔
پھر سب نے مزیدار کھانے پر ہاتھ صاف کیے ۔ کھانے میں ظفر کی فرمائش پر خاص طور پر سانگھڑ سے منگوائی گئی ایک نئے نام کے دریا کی مچھلی جس کا سالن بھی تھا اور جو تلی بھی گئی تھی۔ مٹن قورمہ اور بریانی تھی۔ میں نے اور ظفر نے مچھلی پر اکتفا کیا۔
کھانے کے بعد عباس فقیر نے اہنی پاٹ دار اواز میں سندھی، پنجابی، سرائیکی اور اردو زبانوں میں گیت سنائے۔ عباس فقیر کو شادی کی ایک تقریب میں گانے کے لیے جانا تھا۔ ہم سب دو گاڑیوں میں گڈی بھٹ نام کی ایک اونچی تفریحی جگہ پہنچے جہاں سے صرف پچاس ہزار کی ابادی والا جگمگاتا ہوا تھر کا مرکزی ضلعی مرکز مٹھی بہت حسین دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں ہم نے بہت سی تصاویر بنائیں اور پھر ہم شب بسری کو سندھ ٹورسٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ماروی ریسٹ ہاوس پہنچے جہاں ایک ہال سے موسیقی کے ساتھ گانے کی آوازیں آتی سنائی دیں تو ہم سیدھے وہاں جا داخل ہوئے۔ کمرے کے اطراف میں صوفے اور میزیں تھیں۔ سامنے چاندنی پر بیٹھے ایک معمر عینک والے اور تین جوان سازندے اور گلوکار راجستھانی پگڑیاں پہنے فن پیش کر رہے تھے۔ ہم تھوڑی دیر رکے۔ پھر کمروں میں جا، تازہ دم ہو کے ایک بار پھر وہاں پہنچے اور ان کے راجستھانی گیتوں سے محظوظ ہونے کے بعد وسیع صحن میں کرسیاں رکھوا کے بیٹھے۔ چائے پی اور باتیں کیں۔
صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار ہو کے نو بجے سلام کوٹ کے لیے نکلنے کا طے کرکے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں وضو کرکے قضا نمازیں پڑھنے کے بعد بستر پر دراز ہوا تو مجھے لگا جیسے کھڑکی کے پردوں کے پیچھے سے چھپکلی کی چک چک چک کی آواز آ رہی ہے اور چھپکلی سے میری کراہت خوف کی حد تک ہے۔ کبھی آواز اتی، کبھی بند ہو جاتی۔ پردہ مارے ڈر کے میں ہٹاوں نہ کہ کہیں فٹ بھر کی چھپکلی برآمد ہو گئی تو جان ہی نکل جائے گی۔
کمرہ فورسٹار ہوٹل کا سا تھا مگر بلند دروازے کے اوپر لگے مستطیل شیشے سے برآمداے کی چھت میں جگمگاتے بلبوں کی روشنی آندر آ رہی تھی۔ مجھے نہ تو اندھیرے اور سکوت کے بن نیند آتی ہے اور نہ ہی تھک جانے کے بعد۔
پہلے برآمدے میں جا کے بلب بجھانے کو بٹن ڈھونڈے جو نہ ملے تو کمرے میں لوٹ کر، آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ کے پائنتی کی جانب تکیے رکھ کے سونے کی کوشش کی مگر اضطراب تھا۔ اگرچہ مسکن قرص نگل چکا تھا مگر ذہن کا فتور کہ نیند نہیں آئے گی نے آنکھیں کھلی رکھیں۔
پھر سے برامدے میں نکلا۔ بجلی کے بٹن تلاش کیے اور کئی چمکدار بلب بجھائے۔ کہیں دو بجے نیند آئی ۔ صبح سوا چھ بجے آنکھ کھل گئی۔ پرندوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سوچا طلوع آفتاب کا منظر اور مور دیکھوں ۔ طلوع آفتاب تو دیکھ لیا مگر مور کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
( جاری ہے )

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply