• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی ٹیم کی آسٹریلیا سے ہار،وجوہات کیا ہیں؟۔۔محمد عامر خاکوانی

پاکستانی ٹیم کی آسٹریلیا سے ہار،وجوہات کیا ہیں؟۔۔محمد عامر خاکوانی

آج آسٹریلیا کا لاہور ٹیسٹ اور ٹیسٹ سیریز جیتنا انصاف اور برحق ہوا۔ پاکستان ہار کا مستحق تھا، بلکہ اصولی طور پر انہیں دو صفر سے ٹیسٹ سیریز ہارنا چاہیے تھی۔
آسٹریلیا کی ٹیم نہ صرف پاکستان سے بہتر ہے، ان کے پاس زیادہ بہتر، زیادہ عمدہ اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں بلکہ ان کی کھیل کی اپروچ بھی جرات مندانہ، مثبت اور جیتنے والی ہے۔ انہوں نے چیمپینز کی طرح کھیلا اورجیت ہمیشہ چیمپینز ہی کو ملتی ہے۔
پاکستان کی اپروچ پوری سیریز میں ڈری ہوئی، بزدلانہ اور دفاعی رہی۔ میزبان ٹیم کو پچز میں کچھ ایڈوانٹیج ملتا ہے ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایسی سلو پچز بنائیں جہاں میچز ڈرا ہونے کے امکانات زیادہ ہوں۔
پاکستان کی اصل قوت اس کی باؤلنگ ، خاص کر فاسٹ باؤلنگ ہے۔ شاہین شاہ بہت اچھی فارم میں ہے، نسیم شاہ اچھا باؤلر ہے، حسن علی آؤٹ آٖف فارم ہے، لیکن اگر پچ میں کچھ ہو تو محمد عباس کو بھی کھلایا جا سکتا ہے اور حارث رؤف یا شاہ نواز ڈھانی پر بھی چانس لیا جا سکتا تھا۔
پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے ہوم گرائونڈز میں ایسی پچز بنائیں جو باؤلرز کو مدد دیتی تھیں، اس کا فائدہ پاکستانی باؤلرز نے زیادہ اٹھایا اور ہم نے جنوبی افریقہ جیسی اچھی ٹیم کو وائٹ واش شکست دی ۔
آسٹریلیا کے خلاف ایک منفی اپروچ کے ساتھ پچیں بنائی گئیں، ایسی پچز کے لئے ہمارے پاس کوالٹی سپنر ہی نہیں۔ یہ سعید اجمل کا دور ہوتا یا یاسرشاہ کا اچھا وقت تو ان پچوں پر مخالف کو آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ نعمان علی اچھا سپنر ہے، مگر اس کے پاس ورائٹی زیادہ نہیں اورآج کل صرف مسٹری لیفٹ آرم سپنر ہی زیادہ پریشان کر سکتا ہے، یہی معاملہ آف سپنر کا ہے۔
ساجد نے بنگلہ دیش میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی مگر ان پچز پر اسے بھی زیادہ مدد نہیں ملی، وہ لیفٹ ہینڈڈ بلے بازوں کو تنگ کر سکتا ہے، مگر اس کے پاس بھی ورائٹی زیادہ نہیں اور اگر مخالف ٹیم اچھا پلان کر لے تو ساجد کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ زاہد محمود لیگ سپنر ہے، اس کے پاس اچھی گگلی بھی ہے، اسے ٹرائی کرنا چاہیے تھا، مگر ثقلین مشتاق بھی مصباح کی طرح روایتی انداز کا کوچ ہے، آؤٹ آف باکس تھنکنگ کا ہمارے کوچز میں ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔
آسٹریلوی بیٹرز بہت اچھا کھیلے ، عثمان خواجہ نے رنزوں کے انبار لگا دئیے، پاکستان کی خوش قسمتی سے وارنر اور سٹیو سمتھ سیٹ ہونے کے بعد بھی وکٹیں گنواتے رہے،ٹریوس ہیڈ آؤٹ آف فارم تھا، خیر اس کی کمی کیمرون گرین اور کیری نے پوری کر دی ، مارنس لبوشین بھی کچھ زیادہ رنز نہیں کر سکا، مگر مجموعی طور پر آسٹریلوی بیٹنگ نے اچھے لمبے رنز کئے اور پاکستانی باؤلرز انہیں مکمل طور پر آؤٹ کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔
ایک فرق پاکستان فاسٹ باؤلرز اور آسٹریلین باؤلرز کی سپیڈ کا تھا۔ شاہین شاہ ٹی ٹوئنٹی میں 145/146کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤلنگ کرتا ہے، ٹیسٹ میں ایک دن میں زیادہ اوورز کرانے پڑتے ہیں، شاہین شاہ نے زیادہ تر 136/137کی سپیڈ سے بائولنگ کرائی ۔ یہی نسیم شاہ کا حال تھا، بلکہ وہ تو کئی بار 133/135کی رفتار سے گیند کراتا رہا۔ مجھے یاد ہے کہ نسیم شاہ نے دو ڈھائی سال پہلے انگلینڈ کا دورہ کیا تو ٹیسٹ میچز میں اس کی مستقل سپیڈ 143کلومیٹر رہی ، کبھی نوے میل یعنی 145کلومیٹر تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ یہ اچھی سپیڈ ہے، مگر ایک آدھ انجری کے بعد اس کی سپیڈ کم ہوگئی ۔
آسٹریلین باؤلرز خاص کر سٹارک اور کمننز ایک سو چالیس کلومیٹر سے زیادہ رفتار سے باؤلنگ کراتے رہے۔ سٹارک ریورس سوئنگ 143/144کلومیٹر کی رفتار سے کراتا ہے، اس کا ریورس سوئنگ یارکر اسی لئے خطرناک ہے۔
پاکستانی باؤلرز اپنی کم سپیڈ کی وجہ سے ریورس سوئنگ کے باوجود اتنے مہلک ثابت نہیں ہوسکے۔ کچھ کریڈٹ آسٹریلین بیٹنگ کو بھی دینا چاہیے جنہوں نے ریورس کو اچھے سے ہینڈل کیا۔
لاہور ٹیسٹ میں اگر پاکستان ٹاس جیت جاتا تو ممکن ہے رزلٹ مختلف ہوتا، تب آخری دن آسٹریلیا کو کھیلنا پڑتا ۔ کراچی میں بھی ٹاس سے فرق پڑا، مگر کراچی کی پچ پر گیند اتنا ریورس سوئنگ نہیں ہوا، جتنا لاہو رمیں ہوتا رہا۔ تیز دھوپ اور کھردری پچ کا بہت فرق پڑتا ہے۔
پاکستانی مینجمنٹ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایسی پلاننگ ہی نہ کی جائے جس میں سب دارومدار ٹاس پر ہو۔ وہ کسی حد تک سپورٹنگ پچ بناتے جہاں پر ہمارے باؤلرز فائدہ اٹھا سکیں اور ہمارے بیٹرز کو بھی کوالٹی باؤلنگ کھیلنے کا کچھ تجربہ حاصل ہو۔
بابر اعظم نے کراچی ٹیسٹ میں کرشمہ تخلیق کیا۔ لاہور میں اس پر توقعات کا دباؤ تھا، اس نے ففٹی بنائی، مگر ہر بار کرشمے تخلیق نہیں ہوتے۔
مڈل آرڈر میں فواد عالم پوری سیریز میں نہایت کمزور لنک ثابت ہوا۔ فواد کا عجیب وغریب بلکہ نہایت فضول بیٹنگ سٹانس ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب بلے باز نے باؤلر کے گیند پھینکنے سے پہلے ہی سیدھا ہوجانا ہے تو پھر عجب انداز میں ٹیڑھا کھڑا رہنے کا کیا فائدہ ؟ یا تو بیٹر اپنے اسی عجیب سٹائل سے باؤلر کو کھیلے اوراسے کنفیوز کرنے کی کوشش کرے، اگر ایسا نہیں تو پہلے ہی بندے کا پتر بن کر سیدھا کھڑا ہو۔
فواد عالم ویسٹ انڈین چندر پال کی نقالی کرتا ہے۔ پہلے تو بات یہ ہے کہ دنیا میں لارا ، ہیڈن، مارک ٹیلر،کک ، سمتھ سے لے کر گنگولی، لینگر،سنگا کارا، گیری کرسٹن اور نجانے کون کون سے نامور ، بڑے کھبے بلے باز گزرے ہیں، نقالی کرنی ہے تو عظیم کھلاڑیوں کی کرے،
چندر پال کی ویسٹ انڈیز کے لئے خاصی خدمات ہیں، مگر وہ کرکٹ کے ٹاپ ٹین میں بھی نہیں آتا۔ اس کے سٹانس پر بھی ہمیشہ اعتراض ہی رہے اور ماہرین مذاق اڑاتے رہے۔ پھر چندرپال زیادہ کمپوزڈ بلے باز تھا، اپنے بیٹنگ سٹانس کو اس نے کسی نہ کسی طرح چلائی رکھا، فواد عالم تکنیکی اعتبار سے اتنا مضبوط نہیں، اس کی نگاہ بھی ویسی نہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کے بعد فواد نے اپنے اسی فضول سٹانس کے ساتھ رنز کئے، اچھی سنچریاں بنائیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کے سٹانس میں بنیادی نقص ہے، وہ عین وقت پر تیزی سے پوزیشن بدلتا ہے اور کئی بار گیند ڈیلیور ہونے تک درست پوزیشن میں نہیں آ پاتا، اس کا آئی لیول، ہیڈ پوزیشن اتنی بہتر نہیں ہوتی۔
اگر مخالف جینوئن فاسٹ باؤلر ہے اور وکٹ ٹو وکٹ باؤلنگ کرائے تو وہ کمنز کی طرح فواد کو ٹریپ کر سکتا ہے یا پھر جس طرح انگلینڈ میں اسے سٹونس نے آؤٹ کیا ۔فواد کے ایل بی ڈبلیو ہونے کے امکانات اس کے سٹانس کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس پوری سیریز میں کمنز نے فواد کو ٹریپ کر کے آؤٹ کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمر گزرنے کے ساتھ بندے کے ریفلیکسز کمزور ہو جاتے ہیں اور اگر فارم اچھی نہ ہو تب فطری کمزوریاں مکمل طور پر ایکسپوز کرا دیتی ہیں۔ یہی فواد کے ساتھ ہوا۔ اس کا نقصان پاکستان کو یہ ہوا کہ ایک کمزور لنک کے ساتھ مڈل آرڈر بیٹنگ کمزور پڑ گئی اور لاہور ٹیسٹ میں تو اتنی طویل ٹیل تھی ، جس کی دنیا کی کسی اچھی ٹیم میں مثال ہی موجود نہیں۔ کہاں پر آخری پانچ کھلاڑی کمزور ٹیل ہوتے ہیں؟
پاکستانی ٹیم کو دنیا کی ٹاپ تھری ٹیموں سے مقابلہ کرنے کے لئےبعض دیگر کمزوریوں کے ساتھ اپنی کمزور طویل ٹیل کا بھی معاملہ حل کرنا ہے۔ انہیں ایک دو اچھے باؤلنگ آل راؤنڈر چاہئیں۔ یا پھر کیمرون گرین کی طرح کا سپیشلسٹ ہٹر جو اچھی بائولنگ بھی کرا سکے۔
فہیم اشرف کی باؤلنگ میں وہ کاٹ اور سپیڈ نہیں رہی، تاہم وہ موجودہ لاٹ میں سے بہتر آپشن ہے۔ ہمیں فہیم سے بہتر باؤلنگ آل راؤنڈر ڈھونڈنا ہوگا، جب تک ایسا نہ ہو موجودہ باؤلرز ہی پر محنت کر کے ان کے نکمے پن میں کچھ کمی تو لانی چاہیے۔ سپنرز میں بھی کھوج جاری رکھیں، ہمیں ٹیسٹ کے لئے ایک اچھا لیگ سپنر چاہیے ، مسٹری سپنر بھی ڈھونڈے جائیں، خاص کر وہ جو اچھی بیٹنگ بھی کر سکیں۔
آسٹریلیا کی ٹیم نے سیریز جیت لی۔ ان کا حق بنتا ہے۔ جو دلیرانہ ڈیکلیریشن انہوں نے لاہور میں کیا، وہ پاکستانی ٹیم تو کسی صورت میں بھی نہ کرتی۔ جرات کا فائدہ آسٹریلیا کو پہنچا اور وہ فاتح بنے۔ یہ تاریخی سیریز ویسے فیصلہ کن ہی ہونی چاہیے تھی۔ ڈرا سیریز تو نرا وقت کا ضیاع ہی ہے۔
رمیز راجہ کو اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا چاہیے۔ ورلڈ کپ میں وہ جرات مند چیئرمین بورڈ لگے۔ اس ٹیست سیریز میں وہ دفاعی سوچ والے لگے۔ رمیز کو اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستانی ٹیم کے لئے کسی اچھے غیر ملکی کوچ کو بھی ڈھونڈناچاہیے۔ ثقلین مشتاق اس کردار کے لئے کم از کم ٹیسٹ میں موزوں نہیں۔ محمد یوسف بیٹنگ کوچ ہوسکتے ہیں، مگر یوسف سے ہائی پرفارمنس سنٹر میں زیادہ کام لینا چاہیے۔ ثقلین کو بھی اچھا سپنر تلاش کرنے کا ٹاسک دینا چاہیے، یہ بڑی خدمت ہوگی۔
قومی ٹیم کے لئے غیر ملکی ہیڈ کوچ اور اچھا غیر ملکی بیٹنگ کوچ لانا چاہیے۔ ویسے تو سابق غیر ملکی فیلڈنگ کوچ نے ہماری فیلڈنگ میں بہت فرق ڈالا تھا۔ ثابت ہوا کہ غیر ملکی سٹاف لیا جائے اور بہترین کومنتخب کیا جائے، چاہے وہ کسی قدر مہنگے ہی کیوں نہ ثابت ہوں۔
ون ڈے کے لئے بہتر امید کرنی چاہیے۔ وائٹ بال کرکٹ کے لئے ہمارے پاس کئی اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔ باؤلنگ میں بھی شاداب خان کی آپشن دستیاب ہوگی، خوشدل شاہ وغیرہ بھی ٹیم میں ہوں گے۔ آسٹریلین ٹیم سے ان کے بعض سپر سٹارز نہیں ہوں گے، اس کا بھی ایڈوانٹیج پاکستان کو مل سکتا ہے، اگرچہ نئے آسٹریلین کھلاڑی بھی کمتر نہیں ہوں گے، ان کی مینٹیلیٹی ایک سی جارحانہ ہوتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply