• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ مکافات عمل کا شکار ۔۔ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

امریکہ مکافات عمل کا شکار ۔۔ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

دس دن قبل تک بظاہر پرسکون نظر آنے والا امریکہ اس وقت بدترین پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں ہے اور دنیا بھر میں طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ظالم اور مغرورحکمرانوں کے لیے عبرت کا نشان بنتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے عوام کے درمیان مختلف تفریق اور امتیازی سلوک کے بارے میں اپنی پالیسیوں کے بارے میں نظر ثانی کریں وگرنہ کسی بھی وقت امریکہ کے موجودہ حالات جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکہ میں اس وقت جاری احتجاج کا آغاز اگرچہ گزشتہ ہفتے پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کے بہیمانہ قتل کے بعد ہوا، اور بظاہر وہی واقعہ اس کا سبب بنا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جتنے بڑے پیمانے پر جو مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان مظاہروں کے دوران تشدد کی جو لہر چل رہی ہے، اور سرکاری املاک کو جو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور بعض مقامات پر اپنے ہی ملک کے قومی پرچم کو جلایا جا رہا ہے اور پاؤں تلے روندا جا رہا ہے،جس سے امریکی عوام کی اپنی حکومت سے شدید نفرت کی عکاسی ہو رہی ہے، تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب فقط گزشتہ ہفتے کا واقعہ نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ امریکہ کی جانب سے ریاستی سطح پر اندرون اور بیرون ممالک جاری ظلم و ناانصافی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف برسوں سے پکتا ہوا ایسا لاوا ہے جو جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعداچانک پھٹ پڑا ہے، وگرنہ اس سے مشابہ واقعات اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ظلم، ناانصافی، عدم مساوات، نسل پرستی، جیسے ظالمانہ اقدامات جب بار بار دہرائے جائیں تو عوام کے صبر کا پیمانہ بالآخر لبریز ہو جاتا ہے اور وہ حقیقی تبدیلی کے لیے میدان میں اتر آتی ہے۔ تو اس سلسلے میں ذرا امریکہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو امریکی عوام کے غم و غصے کے اسباب کو سمجھنے میں آسانی ملے گی۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امریکہ اپنی عسکری اور اقتصادی برتری کے گھمنڈ میں اس حد تک مست ہو چکا تھا جس کے سبب پوری دنیا سے اپنی اس مذعومہ برتری کو جتوانے کے لیے اس نے ایسی خارجہ پالیسی اپنا رکھی تھی جس سے اس کے غرور اور تکبر کی عکاسی ہوتی ہے۔ امریکہ دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھی نہیں چونکتا اور اسے عسکری اور اقتصادی برتری کی بنیاد پر اپنا حق سمجھتا ہے، جیسے عراق اور افغانستان پر حملے اور دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کے دوران اس نے یہی رویہ اختیار کیا، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اس برتری کے حصول کے لیے اس نے انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کتنے ممالک کے انسانوں کا قیمتی خون بہایا ہے، اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ اس کی اقتصادی ترقی کا ایک بڑا حصہ اسلحے کا کاروبار ہے اور ہر عاقل انسان یہ بہ آسانی سمجھتا ہے کہ جس کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ انسان کش اسلحے اور ہتھیار ہوں وہ اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے قتال اور جنگ کوہی فروغ دے گا! اور یہیں سے اس کے انسانی حقوق کے نعروں کا کھوکھلہ پن بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ امریکہ کا دنیا کے دیگر ممالک میں فوج تعینات کرنا اور دوسرے ممالک کے سمندری حدود میں اپنے جنگی بحری بیڑے تعینات کرنا بھی اس بالادستی کے حصول کی ظالمانہ اور متکبرانہ خواہش کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی ایسی ہے کہ کوئی اور ملک ایسی پالیسی اپنانے کی کوشش کرے تو وہ اس کی مذمت میں ذرا تاخیر نہیں کرتا حالانکہ جو کام قابل مذمت ہو اسے اپنے لیے کیسے جائز تصور کرتا ہے۔

اگر کوئی ملک امریکی بالادستی کو قبول نہ کرے اور اس کے ظالمانہ اقدامات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرےتو وہ اس ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی خاطر وہاں کے عوام کو اپنی ریاست کے خلاف اکسانے تک سے گریز نہیں کرتا اور اس مقصد کے لیے اخلاقی حدود سے آگے بڑھ کے وہاں پر پرتشدد کارروائیوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
اس طرح کی غیر متوازن خارجہ پالیسی کے علاوہ داخلی طور پر بھی نسلی بنیادوں پر طویل عرصے سے جو ناانصافیاں ملک میں جاری تھیں ان سب کے اثرات اب موجودہ مظاہرے کے دوران ظاہر ہو رہے ہیں وگرنہ یہ ناممکن ہے کہ صرف ایک واقعہ اچانک اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کا سبب بنے۔ یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ امریکہ میں چند عشرے قبل تک نسلی برتری کوباقاعدہ قانونی تحفظ حاصل تھا یعنی وہاں گوروں کو سیاہ فام انسانوں پر قانونی طور پر برتری حاصل تھی، لیکن اس کالے قانون میں اصلاح کے باوجود ابھی تک اس کے اثرات وہاں وقتا فوقتا ظاہر ہوتے رہتے ہیں جس کے تحت سیاہ فام شہریوں کو گوروں کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی ایک مثال گزشتہ ہفتے جارج فلوئیڈ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تھا۔

یہاں امریکہ کے حوالے سے ایک اور نکتے کی طرف بھی اشارہ مناسب ہے وہ یہ کہ موجودہ احتجاج کے دوران جو عمومی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے ان کے تہذیب یافتہ ہونے کی قلعی بھی کھل گئی ہے چونکہ احتجاج کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ کسی طور پر بھی کسی مہذب قوم کا طریقہ نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس وقت بدترین انداز میں جلاؤ، گھیراؤ، تشدد اور لوٹ مار کا بازار وسیع پیمانے پر گرم ہے، البتہ واضح رہے کہ 1980 کے عشرے میں بھی ایک خبر ایسی آئی تھی جس سے دنیا امریکی تہذیب کے دھوکے سے نکل آئی تھی ، بر حسب واقعہ جب رات کو ایک شہر کے بڑے علاقے میں کچھ دیر کے لیے بجلی چلی گئی تو تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی دکانوں پر مہذب قوم کے لوگوں نے ہاتھ صاف کر دیے تھے، اور مجموعی طور پر کروڑوں ڈالرز پر مشتمل اشیاء چوری ہو گئیں تھیں۔۔۔ اب بھی احتجاج کے دوران دن دیہاڑے بدترین لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں سے آنے والی ویڈیوز میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا کالے کیا گورے بڑے بڑے سٹورز کے دروازے توڑ کر لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے لیکن عوامی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا کسی کا حق نہیں ہے اور یہ چاہے کہیں بھی کسی بھی ملک میں ہو قابل مذمت ہے لہذا اس وقت احتجاج کے دوران وہاں پر جو جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار جاری ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور کسی بھی لحاظ سے احتجاج کے دوران ایسے طرز عمل کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ خود امریکہ کے لیے یقیناباعث عبرت ہے کیونکہ وہ خود دیگر ممالک میں ایسے پر تشدد مظاہروں کی نہ صرف حمایت بلکہ حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے اور خود امریکی صدر ایسے مظاہروں کے دوران ٹوئیٹ اور بیانات کے ذریعے پرتشدد مظاہرین کو “بہادر” قرار دیتا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اس وقت اپنے ملک میں موجود مظاہرین کو فوج کے ذریعے دبانے کی دھمکی دے رہا ہے۔۔۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ اس وقت بدترین مکافات عمل کا شکار ہے کیونکہ اس نے خود دیگر ممالک میں سیاسی عدم استحکام کے لیے جو طریقہ متعارف کرایا تھا آج خوداس کی بدترین شکل میں پر تشدد مظاہروں کی لپیٹ میں ہے، اور تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply