• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیے ؟(2،آخری حصّہ)۔۔محمد عامر خاکوانی

کیا صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیے ؟(2،آخری حصّہ)۔۔محمد عامر خاکوانی

کالم/ تجزیہ ـ اخبار کے باقی تمام شعبے ایسے ہیں جن میں کام کرنے والے اپنی ذاتی رائے ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ ان پر ایک طرح سے پابندی ہوتی ہے کہ اپنی رائے نہ دیں اور جو واقعہ، خبر جیسے ہے، ویسے ہی بیان کر دیں۔
کالم کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ اس میں لکھنے والا اپنی رائے کا اظہار ہی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کالم نہ صرف لکھنے والے کے نام بلکہ پچھلے بیس پچیس برسوں سے اس کی تصویر کے ساتھ ہی شائع ہوتا ہے۔
کالم نگار مختلف خبروں، واقعات، چیزوں پر اپنی ذاتی رائے، تجزیہ یا مشاہدہ بیان کرتا ہے۔ فطری طور پر کالم نگار کے لئے مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا ممکن نہیں۔ اسے پیسے ہی اپنی رائے دینے کے ملتے ہیں۔
جیسے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ستائیس مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ کا اعلان کیا۔ رپورٹر یہ خبر فائل کرے گا کہ وزیراعظم نے یہ اعلان کیا، فلاں فلاں وزیر نے یہ کہا، دوسرا رپورٹر جو اپوزیشن کی جماعتوں کو کور کر رہا ہوگا، وہ خبر دے گا کہ اپوزیشن کا ردعمل کیا ہوگا۔
کوئی رپورٹر دی گئی اسائنمنٹ کے مطابق اس پر قانون دانوں، ریٹائر کمشنر حضرات وغیرہ کی رائے دے گا کہ قانونی پوزیشن کیا ہے، انتظامیہ ایسے میں کیا کرتی رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ فیچر لکھنے والا اس کے مختلف اینگلز کو کور کر کے فیچر بنائیں گے کہ جلسہ کہاں ہوگا، کتنے لوگ وہاں آ سکتے ہیں، کیا تیاریاں چل رہی ہیں، اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
رپورٹر، فیچر رائٹر یہ نہیں کہیں گے کہ جلسہ کرنا چاہیے یا نہیں ۔ اس حوالے سے رائے اداریہ میں آ سکتی ہے، مگر وہ اخبار کی آفیشل رائے ہوگی جو کہ بہت بار ڈپلومیٹک ہوتی ہے، اگر، مگر چونکہ چناچہ والی .ویسے بہت بار کوئی خبر اداریہ یا ادارتی نوٹ کا موضوع نہیں بن پاتی کہ پورے اخبار میں صرف دو تین خبروں پر ہی اداریہ یا نوٹ(شذرہ ) لکھا جا سکتا ہے۔
کالم نگار البتہ اس معاملے پر اپنی پرسنل رائے کا اظہار کرے گا۔ وہ اپنے قارئین کو بتائے گا کہ اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں، یہ کس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی کالم نگار اس کا دفاع کرےکہ جس طرح کے غیر اخلاقی حربے اپوزیشن استعمال کر رہی ہے، اس کے بعد وزیراعظم بیچارہ کیا کرتا؟ وہ مجبور ہوگیا عوام سے رابطہ پر وغیرہ وغیرہ۔
کالم نگار غیر جانبدار نہیں ہوسکتا۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک واضح رائے دیتا ہے ، کسی کو اچھی لگے یا بری ، اسے اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے اخبار کی پالیسی کی کسی حد تک قدغن ہوتی ہے، مگر بہت بار اخبار اپنی پالیسیوں کو کالمز کے لئے کچھ لچکدار رکھتے ہیں، بعض کالم نگار اتنے ممتاز اور سینئر ہوتے ہین کہ ان کا کالم روکنا یا ایڈیٹ کرنا اتنا آسان نہیں رہتا، اگرچہ یہ ایڈیٹر کا حق ہے کہ وہ کسی بھی کالم کو روک سکے ۔
کالم نگار کو البتہ دیانت داری کے ساتھ اپنی رائے دینی چاہیے۔ اسے متعصب یا کینہ پرور نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اینگلنگ نہیں کرنی چاہیے، اپنے قارئین کو وہ جواب دہ ہے، ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرے۔ جو بات جیسے فیل ہو رہی ہے، ویسی بیان کر دے۔
دنیا بھر میں کالم نگار، تجزیہ نگار مختلف ایشوز پر اپنی رائے بناتے ہیں، اسے بیان کرتے ہیں اور پبلک کی اوپینین میکنگ کرتے ہیں، اس لئے انہیں اوپینین میکرز کہا جاتا
ہے ۔
کالم نگار کبھی اپنی رائے سے رجوع بھی کرتے ہیں۔ کئی امریکی صحافیوں نے عراق وار کے حق میں لکھا ،مگر بعد میں انہوں نے اپنی رائے تبدیل کر لی۔ کئی لوگ پہلے افغانستان پر امریکی حملہ کے حق میں تھے، مگر بعد کے برسوں میں انہوں نے طالبان سے مذاکرات کر کے ایگزٹ کرنے پر زور دیا۔ مودی کو سپورٹ کرنے والے بعض بھارتی صحافی اب اس کے شدید ناقد ہیں۔ کئی پروکانگریس صحافی بعد میں اینٹی کانگریس ہوگئے۔ جب ستر کے عشرے میں اندراگاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور صحافیوں، سیاسی کارکنوں کو سزائیں دیں تو بیشتر لکھنے والوں نے اس پر نرم، سخت الفاظ میں تنقید کی۔ خوشونت سنگھ جیسا لکھنے والا ایمرجنسی کا حامی تھا اور اس نے بھرپور دفاع کیا، بعد مین اس پر کتاب بھی لکھی۔
کالم نگار صحافی بھی ہوتے ہیں اور مختلف شعبوں کے پروفیشنل بھی۔ ریٹائر عسکری ماہرین، ریٹائر سفارتکار، معاشی ماہرین، تعلیم، صحت، ماحولیات وغیرہ کے ماہرین اپنے کالم یا Op-Edلکھتے ہیں۔ تاہم سینئر صحافی اور کبھی سینئر رپورٹر حضرات بھی کالم لکھتے ہیں۔
اردو صحافت میں چونکہ زباں وبیاں اور اسلوب کی بڑی اہمیت ہے ، عوام کی دلچسپی معاشیات، خارجہ امور وغیرہ میں بہت کم ہوتی ہے، سماجی موضوعات ،سیاست،ادب وغیرہ معروف موضوعات ہیں، کچھ لوگ ہلکے پھلکے انداز میں بھی ان موضوعات پرلکھتے ہیں ، اکا دکا شگفتہ لکھنے والے بھی ہیں انہیں فکاہیہ نگار کہا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ ایک کالم نگار سے غیر جانبداری کے نام پر گونگا اندھا ہونے کا مطالبہ کرنا پرلےدرجے کی لاعلمی اور جہالت ہے۔ وہ اپنی سوچی سمجھی رائے اور تجزیہ پیش کرتا ہے۔ اسے پڑھنے والے اس لئے پڑھتے اور اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ کالم نگار یا صحافی کی رائے اہم ہے۔ درحقیقت تجزیہ کار یا صحافی کو اپنی رائے دینے کے ہی پیسے دئیے جاتے ہیں۔
ایاز امیر جو دنیا اخبار میں کالم لکھتے اور دنیا چینل پر پروگرام کرتے ہیں، انہیں اپنی رائے ظاہر کرنے کے ہی لاکھوں روپے دئیے جاتے ہیں،اسی طرح دیگر سب کا معاملہ ہے۔ ظاہر ہے یہ تو انڈرسٹڈ ہے کہ رائے دینا والا ایمانداری سے اپنی رائے دے گا، وہ پیڈ نہیں ہوگا اور مفادات کی خاطر ضمیر کا سودا نہیں کرے گا۔
تاہم کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ رائے دینے والے کسی خاص نظریے یا سوچ کے علمبردار ہوتے ہیں اور ان کی رائے بعض ایشوز میں بڑی حد تک طے شدہ ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود چونکہ ان کو پڑھنے یا سننے والا ایک بڑا حلقہ موجود ہے اور وہ عوامی حلقہ اس رائٹر یا تجزیہ کار کی بات کو اہمیت دیتا ہے، اس لئے اخبارات یا چینلز اس مخصوص رائے کو بھی اپنے پیکیج میں شامل کرتے ہیں تاکہ آڈینس یا قارئین کا وہ حلقہ بھی ان کے ساتھ جڑا رہے۔
مثال کے طور پر امریکہ میں کچھ صحافی روایتی طور پر کنزرویٹو ہیں وہ قدامت پسند تصورات کو اپنے کالموں، وی لاگ، ٹاک شوز، ریڈیو شوز میں پیش کرتے ہیں اور ان کے لاکھوں اور کبھی تو کئی کئی ملین سننے ، پڑھنے والے ہوتے ہیں، کچھ لبرل ڈیموکریسی ، لبرل اکانومی یا سیاسی طور پر ڈیموکریٹس کو سپورت کرتے ہیں، برطانیہ میں بعض اخبار پرو لیبر پارٹی، پرو ٹوری پارٹی ہیں، کچھ لبرل ڈیمو کریٹس کے حامی ، ان کے لکھنے والے بھی اسی طرح کے ہیں، انڈیا میں بھی اسی طرح پروکانگریس، پرو بی جے پی، پرو لیفٹ، پرو دلت وغیرہ وغیرہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply