عوام کی عدالت۔۔زاہدہ حنا

” ایوان انصاف” اور “میزان عدل” کا تصور ہزاروں برس پرانا ہے۔ یہ ایوان انصاف قدیم مصریوں کا ہو یا میزان عدل ایرانیوں کی ہو، ان سب کا مقصد انسانوں کو ان کی خامیوں اور ان کی خوبیوں کی سزا اور جزا دینا رہا ہے لیکن ایک ” ایوان انصاف ” دنیا بھر کے حکمران اپنے اپنے زمانے میں اپنی اپنی خواہشوں کے مطابق آراستہ کرتے رہے۔

ان کے حق حکمرانی کو جن سے خطرہ تھا، انھیں دار پر چڑھاتے رہے، ان کی آنکھیں نکلواتے رہے اور ان کی کھالیں کھنچواتے رہے پھر اپنے ” انصاف ” کو جواز اور دلیل فراہم کرنے کے لیے اپنے درباری مورخوں سے “عدل و انصاف” کے ان معاملات کا تاریخ میں اندراج کراتے رہے۔ مطمئن رہے کہ ان کے “انصاف ” کا بول بالا رہے گا اور ان کے “مجرموں ” کا نام لوگوں کے ذہنوں سے ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے گا۔

ایک طرف حاکموں کا یہ رویہ تھا، دوسری طرف تاریخ تھی جو انصاف کی دیوی کی طرح اندھی نہ تھی۔ اس کے سینے میں محفوظ رہنے والا سچ جلد یا بہ دیر لوگوں پر آشکار ہوتا رہا، درباری وقایع نگاروں کی تحریریں بھی موجود رہیں اور وہ سچ بھی جو ان تحریروں کو منسوخ کرتا رہا۔

کیسی دلچسپ بات ہے کہ اب سے لگ بھگ چوبیس صدیوں پہلے یونانیوں نے سقراط پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایتھنز شہر کے دیوتاؤں کا منکر ہے اور نوجوانوں کو اپنی تعلیمات سے گمراہ کررہا ہے، چنانچہ اسے سزائے موت دی جائے۔

ایتھنز میں ایسے بے شمار بااثر افراد تھے جو سقراط کے کٹیلے جملوں اور اپنی خرابیوں کی طرف سقراط کے اشاروں سے عاجز و بیزار تھے، چنانچہ ایتھنز کے 501 شہریوں کی جیوری پر مشتمل عدالت میں سقراط نے اپنی مشہور زمانہ تقریر کی اور اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کو غلط ثابت کردیا۔ اس کے باوجود سقراط کو اکثریت نے سزائے موت سنائی۔ ستر سالہ بوڑھے فلسفی نے اس سزا کو خندہ پیشانی سے سنا اور اپنے بااثر دوستوں کی ترغیب کے باوجود جیل سے فرار ہونے کے منصوبے کو رد کردیا۔ اس نے عدالت کی تجویز کی ہوئی سزا کے مطابق زہر کا پیالہ پیا اور زندگی سے آزاد ہوگیا۔

جیوری کے وہ ارکان جنھوں نے سقراط کو “مجرم” قرار دیا تھا، اس کی موت کے روز کتنے خوش ہوئے ہونگے کہ انھوں نے “انصاف” کا سر بلند کردیا ہے۔ ایتھنز کی شہری ریاست کا نظم و نسق چلانیوالوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرنیوالے ایک “اخلاقی مجرم” کو ٹھکانے لگاکر اپنے شہر کو پاک کر چکے ہیں لیکن انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کے سرکاری وقایع نویسوں کے ساتھ ہی ساتھ کرائٹو اور افلاطون بھی اس واقعے کو لکھ رہے ہیں اور تاریخ میں ان ہی کے لکھے ہوئے کو وقار حاصل ہوگا۔

ایتھنز کا “مجرم” سقراط دنیا بھر میں ایک عظیم فلسفی اور معلم اخلاق کے طور پر پہچانا جائے گا جب کہ اس کے خلاف پرچا کٹوانے والوں کے نام بھی لوگوں کو یاد نہیں رہیں گے اور اگر وہ یاد کیے بھی جائینگے تو اس لیے کہ انھوں نے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا اور ایک معصوم شخص کو سزائے موت دلانے کا سبب بنے تھے۔

تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مظلوم امام حسین ابن علی جسے اکہتر عزیزوں، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ شہید کرکے یزید اور ابن زیاد اور شمر نے اپنے حسابوں ” انصاف” کیا تھا، جس پر حکومت وقت کے خلاف بغاوت کا الزام لگاکر مملکت اسلامیہ کے تمام نامی گرامی قاضیوں سے ” قتل کا فتویٰ ” لیا گیا تھا۔

جب نیزے کی انی پرامام حسین کا سر اور اس کے خانماں برباد گھرانے کی پاکبازعورتیں کوچہ و بازار سے گزاری جارہی تھیں تو حاکمانِ وقت کے خیال میں یہ تمام لوگ وقت کی گرد میں چھپ جانے والے تھے جب کہ ان کے نام تاریخ کے صفحوں پر آب و تاب سے قائم رہنے کے لیے تھے وہ ایسا کیوں نہ فرض کرتے کہ سرکاری وقایع نویس یہی لکھ رہے تھے لیکن وقت سچ کو محفوظ کررہا تھا اور پھر یہ بھی تاریخ نے دیکھا کہ شہداء کربلا کے نام ابدی ہوئے اور انھیں مٹانے والوں کی قبروں کا نشان بھی نہیں ملتا۔

تاریخِ اسلام میں ہمیں اور بھی کیسے کیسے نام نہیں ملتے جن کے ساتھ حاکمانِ وقت نے ” انصاف ” کیا، سچ بولنے اور حکمرانوں سے اختلاف کرنے کی سزا میں کیسے کیسے نادر روزگار افراد جان سے نہیں گئے، دار پر نہیں چڑھے، بندی خانوں میں ہلاک نہیں ہوئے۔ یہ سزائیں دینے والے جتنے بھی “امیر المومنین” تھے، ان کا یہی خیال تھا کہ یہ سزائیں پانے والے لوگوں کے حافظے سے بھی محو ہو جائیں گے لیکن ہوا یہ کہ سزائیں پانے والے آج بھی محترم اور مقدس ہیں اور سزائیں دینے والے اس حوالے سے پہچانے جاتے ہیں کہ انھوں نے کن بے گناہوں کو ہلاک کیا تھا۔

اگر ہم دوسری جنگ کے واقعات پر نگاہ ڈالیں تو ہٹلر سے ملاقات ہوتی ہے جو ساٹھ لاکھ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار کر “انصاف” کررہا تھا جس کے نتیجے میں خودکشی اس کا مقدر ہوئی اور اس کا نام جرمن تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا۔

برطانوی راج نے بھگت سنگھ، دادا اشفاق اور نہ جانے کتنوں کو ” بغاوت ” کے الزام میں پھانسی دی، اپنے حساب سے ” انصاف کا بول بالا” کیا، نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بھگت سنگھ کو پھانسی دینے والے عوامی حقارت کا نشانہ بنے، برطانوی راج کا سورج غروب ہوا اور بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی آج برصغیر کے قومی ہیرو ہیں۔

گزشتہ پچاس برس کی تاریخ عالم ایسے متعدد واقعات سے بھری ہوئی ہے جن میں ” بغاوت” اور “غداری” کے الزامات کا سامنا کرنیوالے ہیرو اور انقلابی مانے گئے اور انھیں سزائیں سنانے والے اپنے چہرے چھپانے پر مجبور ہوئے۔ نیلسن منڈیلا کا نام اس کی سب سے سامنے کی اور روشن مثال ہے۔ وہ شخص جسے جنوبی افریقہ کی حکومت نے سب سے بڑا “دہشت گرد” قرار دیا تھا اور جو 30 سال سے زیادہ ایک مجرم کے طور پر جیل میں بند رکھا گیا، وہ آج دنیا میں ایک مصلح، ایک عظیم رہنما کے طور پر مانا جاتا ہے اور بڑے بڑے قضیوں اور تنازعات میں اس سے ثالثی کی درخواست کی جاتی ہے۔

حسن ناصر، نذیر عباسی، سردار نوروز خان اور ان کے بعض ساتھی وہ افراد ہیں جن کے خلاف نہ کوئی مقدمہ چلا، نہ پاکستان کی کسی عدالت نے انھیں سزا سنائی، اس کے باوجود حاکمان وقت کے خیال میں یہ افراد “غدار” تھے چنانچہ ان ” غداروں ” میں سے حسن ناصر لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوئے، نذیر عباسی کراچی میں ناقابل برداشت تشدد کا نشانہ بنے اور جان سے گئے، سردار نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو جھوٹی قسمیں دلاکر بلوچستان کے پہاڑوں سے اتارا گیا اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ عجب “غدار” تھے کہ جو آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کے ساتھ ” انصاف ” کرنیوالے روسیاہ ٹھہرے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کے کئی مقدمے عدالتی تاریخ میں یادگار رہیں گے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں آئین کو عدالت نے ” نظریہ ضرورت ” کے تحت موت کے گھاٹ اتارا اور جس کے ایک منتخب وزیراعظم کو اختلافی فیصلے کے باوجود سزائے موت نہ صرف یہ کہ سنائی گئی بلکہ دی بھی گئی۔ تاریخ سے بار بار یہی ثابت ہوا ہے حاکم کسی فلسفی، سیاستدان، یا رہنما کو جھوٹے الزامات اور ناجائز بنیادوں پر موت کے گھاٹ اتار دیں تو وہ سزا خواہ کسی عدالت نے ہی کیوں نہ سنائی ہو، تاریخ اور عوام کی عوامی عدالت سے تسلیم نہیں کی جاتی۔ اہمیت حکمرانوں کی نہیں بلکہ اس فیصلے کی ہوتی ہے جو تاریخ اور وقت کی عدالت کرتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply