دوسرا عظیم آئیڈیا ، شخصیت /ڈاکٹر مختیارملغانی

ریئیلٹی کے بعد انسانی تاریخ میں عظیم ترین تصور شخصیت (Personality) کو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، حقیقت کا تصور جہاں اس سوال کے نتیجے میں سامنے آیا کہ میں کہاں ہوں؟ وہاں شخصیت بلاشبہ ،میں کون ہوں؟ کی مرہونِ منت ہے۔ ان تمام بڑے آئیڈیاز کا بنیادی مقصد ،کسی بھی موضوع/معاملے پر، انسان کے نکتۂ نظر کی تشکیل ہے۔ پرسنیلٹی کا تصور اس قدر اہم ہے کہ نکتۂ نظر کے ساتھ ساتھ پوری کی پوری نفسیات، سماجیات، سیاسیات اور قوانین اسی تصور پہ کھڑے ہیں۔

قدیم تہذیبوں میں، آپ کی شخصیت یا میری شخصیت، جیسا کوئی تصور موجود نہ تھا، اس وقت کا آدمی خود کو جزو سمجھتا اور مانتا تھا، اس کائنات، اس زمین ، اس نظام کا ایک جزو، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
قدیم یونانی اصطلاح Prosopon سے شخصیت کے تصور کی جڑیں جا ملتی ہیں، پروسوپون کا مطلب ماسک ہے، جو تھیٹر میں کام کرنے والے اداکار اپنے چہرے پر چڑھاتے تاکہ کردار کی بہتر تصویر کشی کی جا سکے،(بعد میں یہ اصطلاح عیسائیت میں تثلیث کی وضاحت میں استعمال ہونا شروع ہوئی، جہاں تین میں ایک اور ایک میں تین کے مباحث شامل تھے ), کوئی ڈراؤنا کردار ہوتا تو ایک بھیانک ماسک، اور اگر کوئی کامیڈی کر رہا ہوتا تو مزاحیہ سا ماسک چہرے پر سجا لیا جاتا، کیونکہ تب اداکار کے اپنے تاثرات کو بے نقاب کرنا معیوب سمجھا جاتا، اس لئے ہر اداکار اپنے اپنے کردار کے مطابق چہرے پر ماسک چڑھا لیا کرتا کہ ان کے مطابق اس طرح کردار کو زیادہ گہرائی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ماسک کا یہ تصور درحقیقت صرف تھیٹر تک محدود نہ تھا، قدیم یونانیوں کے ہاں ہر فرد کے اپنے اپنے کردار ہوتے، وہ باپ، بیٹا، ماں، بیٹی ہو سکتا تھا، تاجر یا حکیم ہو سکتا، غرض فرد مخصوص کرداروں میں بٹا ہوتا، اگر تب ایسے فرد سے پوچھ لیا جاتا کہ ان کرداروں کے پیچھے تمہارا اصل چہرہ کیا ہے، تمہاری شخصیت کیا ہے؟ تو شاید وہ آپ کے سوال کو نہ سمجھ پاتا کہ تب ایسا کوئی تصور موجود ہی نہ تھا، قدیم یونانی خود کو خداؤں کی کٹھ پتلیاں بتاتے جو اپنا اپنا کردار ادا کر کے اس جہاں سے رخصت ہوتی ہیں، اسی تصور کو بعد میں شیکسپیئر نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ۔

دوسری طرف رومیوں کے ہاں ایک لاطینی اصطلاح Persona رائج تھی، جو ایسے شخص کیلئے استعمال ہوتی جو قانون کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کیلئے جواب دہ ہونے کی صلاحیت رکھتا، فرد اپنے بچوں، اپنے غلاموں، اپنی زمینوں اور دیگر معاملات کو لے کر قانون کے سامنے جوابدہ ہوتا، یہاں بھی صرف فرد کے مخصوص کردار، یعنی قانونی  ذمہ داری یا سماجی پہلو، ہی کی بات کی جا رہی ہے، یہ قدیم اور پہلا ماڈل ہے جہاں شخصیت کا تصور ناپید ہے ۔

فرد کی اپنی شخصیت کا بنیادی تصور مذہب سے نمودار ہوا، مذہب نے فرد کے سماجی اور قانونی کرداروں کو صرف پہلو قرار دیتے ہوئے بتایا کہ آپ اپنی اصل میں ان کرداروں سے کہیں گہرے ہیں، یونانی اور رومیوں کے ہاں فرد کے بیرونی روپ کو اصل مانا جاتا، جبکہ مذہب کسی بھی فرد کے اندرونی چہرے کو اس کی اصل شخصیت بتاتا ہے۔ یہ اصل شخصیت امر ہے، تخلیق کے بعد سے اب ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور زمین پر ہر جدوجہد میں اس کا مرکزی کردار ہے، یہ انسانی روح ہے جو فرد کہ حقیقی شخصیت ہے اور خدائی عنصر لئے ہوئے ہے، شخصیت کا یہی تصور بعد میں مذکورہ بالا تمام سماجوں میں ، کہیں مکمل کہیں جزوی ، سرایت کرتا چلا گیا۔اسے آپ دوسرا ماڈل کہہ سکتے ہیں۔

شخصیت کا یہ تصور کم و بیش سترھویں اٹھارویں صدی تک قائم رہا، نشاۃ ثانیہ کے بعد تیسرا ماڈل سامنے آیا ، تیسرے ماڈل کے اس تصور میں سے خدائی عنصر کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس کی جگہ، میں، نے لے لی، انسانی وجود، انسانی انفرادیت، خود داری اور اس کے حقوق کو انمول قرار دیا گیا، انفرادیت اور اس کے حقوق کیونکر انمول ہیں اس بارے لبرل دوست تاریخ میں نہیں جانا چاہتے۔
شخصیت کے تصور کو لےکر آج جس، چوتھے ماڈل، کو پھیلانے کے کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ کہ ،میں، نامی کوئی شے موجود نہیں ہے، کچھ حادثات کے نتیجے میں ایک وجود نے جنم لیا، یہ وجود سماجی، ثقافتی، حیاتیاتی، جینیاتی اور نفسیاتی حادثوں کا ایک مرکب ہے، جو بس وجود میں آگیا، اس کے پیچھے کوئی منطقی یا غیر مرئی وجوہات تلاش کرنا بے سود ہے، یہ تصور کسی حد تک قدیم تصور کے قریب تر ہے کہ شخصیت جیسا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہ تھا۔

آپ کوئی بھی کام کرتے ہیں، منصوبہ بناتے ہیں، نیت کرتے ہیں، خواب بنتے ہیں، جدوجہد کرتے ہیں، ان سب فیصلوں کے پیچھے شخصیت کا تصور غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، جس کا عموماً فرد کو ادراک نہیں ہوتا، کہ وہ کون ہے؟
کیا وہ ابدیت کے ساتھ فنا ہو جانے والا وجود ہے؟
یا وہ خدا کی تخلیق ہے جو اپنی گہرائیوں میں خدائی عنصر لئے ہوئے ہے؟
کیا وہ ایک خوددار اور انمول انفرادیت کا مالک ہے جس کے حقوق کو پامال کرنا دنیا کے ہر قانون میں جرم ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

یا تو پھر وہ ایک حادثاتی وجود ہے، جو مادی مرکبات کا نتیجہ ہے ،جو وسیع تر کائنات میں کوئی معنی نہیں رکھتا لہذا زندگی گزارنے کا مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ عیش و مستی میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کیا جائے؟
آپ کون ہیں ۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply