پیس کو آگ کس نے لگائی؟۔۔نجم ولی خان

پیس، میرے شہر کا پہلا جدید پلازہ کہا جا سکتا تھا جس میں لاہوریوں نے ایسکے لیٹرز یعنی برقی زینے دیکھے، یہ میرے بچپن کی بات ہے جب بہت سارے لوگ صرف اس پلازے کی تعمیراتی جدت کو دیکھنے کے لئے وہاں جاتے تھے، جب موبائل فون نئے نئے آئے تو ان الیکٹرک سیڑھیوں پر چڑھتے اور اترتے ہوئے ویڈیوز بنتی تھی اور پھر اس کے بعد لاہور میں جدید پلازوں کی بھرمار ہو گئی۔

اس پلازے میں چار سو کے قریب دکانیں تھیں اور یہ ملک بھر میں موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے حوالے سے مشہور ترین حفیظ سنٹر کے ساتھ مین بلیوارڈ گلبرگ پر موجود ہے مگر اس وقت یہ راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ میرے بہت سارے دوست قائل ہیں کہ پیس میں لگنے والی آگ ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت لگائی گئی ہے۔

پیس کے تاجروں کی یونین کے جنرل سیکرٹری مرزا عامر بیگ کا الزام ریکارڈ پر ہے جس میں وہ پلازہ کے مالکان کے بارے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل انہیں ساتھیوں سمیت بلایا اور تاجروں کو بھاری رقم کی پیش کش کے ساتھ پلازہ خالی کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

ہم پاکستانی عام طور پر سازشی تھیوریوں کو پسند کرتے ہیں جن میں ہمیں بتایا جائے کہ فلاں فلاں بڑے نام فلاں فلاں سازش میں ملوث تھے جیسے اس وقت کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکا اور یورپین یونین ہے۔ عمران خان سے یاد آ یا کہ ان کا نام بھی اس پلازے کے اولین مالکان میں لیا جاتا تھا اور وہ سلمان تاثیر کے ساتھ پارٹنر قرار دئیے جاتے تھے۔ اس وقت یہ تھیوری چل رہی ہے کہ پیس کو اس کی مالک تاثیر فیملی نے خود آگ لگوائی ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے درج ایف آئی آر بھی کسی حادثاتی واقعے کے بارے نہیں بلکہ نامعلوم افراد کے خلاف ہے۔

اسی پلازے کے سیکورٹی افسران کو امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے، سوال درست ہے کہ وہ امدادی کاموں میں معاون ہونے کے بجائے رکاوٹ کیوں ڈال رہے تھے۔ پلازے کے تاجر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پلازے کی بجلی ایک سنٹرل کنٹرول روم سے رات سوا گیارہ بجے منقطع کر دی جاتی ہے لہٰذا شارٹ سرکٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاہم اس حوالے سے ایک موقف یہ ہے کہ کوئی دکاندار اپنا یوپی ایس بھی آن چھوڑ کے جا سکتا ہے اور وہ بھی آگ لگا سکتا ہے۔ سازشی تھیوریوں کے مقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی درست ہوتی ہیں۔

میں نے پیس کو جلتے ہوئے دیکھا اور وہاں روتے ہوئے ان خاندانوں کو بھی جو بجا طور پر کہہ رہے تھے کہ وہ عرش سے فرش پر آ گئے ہیں۔ نقصان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ دوبارہ کاروبار شروع کرنے کے لئے پچاس لاکھ روپے کے لگ بھگ سرمائے کی ضرورت پڑ سکتی ہے مگر چار سو میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کے پاس اتنی سرمایہ کاری موجود نہیں ہوگی۔ مجھے پیس، کے بعض دکانداروں نے کہا کہ میں ان کے لئے آواز بلند کروں، حکومت ان کی مدد کرے۔ وہ یاد کروا رہے تھے کہ آج سے بیس، اکیس برس پہلے بھی پیس میں آگ لگی تھی اور لوگوں کا لاکھوں روپوں کا نقصان ہوا تھا مگر اس وقت سلمان تاثیر مرحوم زندہ تھے اور انہوں نے پلازے کی بحالی میں کردار بھی اداکیا تھا مگراب پیس کی بحالی کے لئے کون متحرک ہوگا۔

جہاں تک حکومت کی طرف سے کسی مدد کا سوال ہے تو وہ دیوانے کا خواب ہے۔ ابھی ایک برس پہلے حفیظ سنٹر میں آگ لگی تھی تو میں نے اس پر بھی پروگرام کئے تھے۔ اس وقت کی یونین کے صدر زیادہ تر گورنر ہاؤس میں ہی پائے جاتے تھے یعنی حکومت کے ساتھ تھے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے تاجر گروپ کو بھی جوائن کیا ہوا تھا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ سے لے کر لاہور کے اس وقت کے ڈی سی او تک نے اپنی سیاست خوب چمکائی تھی اور بڑی بڑھک بازی ہوئی تھی۔

ایل ڈی اے نے بھی کوئی کمیٹیاں شمیٹیاں بنائی تھیں جس نے پلازے کی حالت کوچیک کر کے اسے بحال کرنا تھا مگر ان میں سے بہت ساری دکانیں ابھی تک بحال نہیں ہوسکیں۔ حفیظ سنٹر کی یونین نے وہی کچھ کیا تھا جو حکومت کر رہی تھی یعنی صرف ڈرامے بازی اور بیان بازی، سو میرا نہیں خیال کہ پیس، کے متاثرین کے لئے کچھ ہو گا۔ جو کچھ کرنا ہوگا انہیں خود ہی کرنا ہوگا، خود ہی بھگتنا ہو گا اگر ان کی انشورنس نہیں ہے۔

چلیں، سازشی تھیوری سے باہر نکلتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ آگ ایک حادثہ تھی اور واقعی شارٹ سرکٹ ہونے کے بعدپھیلی تھی مگر سوال یہ ہے کہ پھرآگ بجھانے والے آلات کہاں تھے، اس پلازے کے تمام ہنگامی راستے کیوں بند تھے، انتظامیہ اور سیکورٹی کی بجائے راہگیروں نے ایمرجنسی سروسزکو آگ کی اطلاع کیوں دی تھی، سوری، بات پھر سازشی تھیوری کی طرف نکل گئی جو کچھ خاص اشارے کر رہی ہے مگر اس سے ہٹ کر بھی میرا شہر بنیادی حفاظتی اور شہری تقاضوں سے محروم پلازوں کا جنگل ہے۔

مجھے ڈر ہے کہ جس طرح اعظم کلاتھ مارکیٹ، پاکستان کلاتھ مارکیٹ اور اندرون شہر ایسی ہی دیگر مارکیٹوں میں تہہ خانے کھود کھود کے مارکیٹیں بنائیں اور کروڑوں روپوں میں بیچی گئی ہیں کسی روز ا چانک ہی کوئی پوری مارکیٹ نہ بیٹھ جائے۔ وہ سینکڑوں دکانداروں، ملازمین اور وہاں آنے والے گاہکوں کی (میرے منہ میں خاک) اجتماعی قبر ہی نہ بن جائے۔ حکمرانوں نے والڈ سٹی اتھارٹی تو قائم کر دی اور اس کی بادشاہی بھی لاشاری صاحب کو سونپ دی مگر وہ شاہی حمام کے ارد گرد کچھ رنگ بازی کرنے کے علاوہ اندرون لاہور میں کوئی بہتری نہیں لا سکے بلکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس اتھارٹی کا عملہ بلدیہ سے زیادہ کرپٹ ہے۔ اندرون لاہور سے باہر آ جائیں تو بغیر پارکنگ کے پلازے بنے ہوئے ہیں۔

جیل روڈ جیسی سڑک پر ایسے پلازے ہیں جن میں تہہ خانے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا کوئی ہنگامی راستہ نہیں۔ مجھے بہت ادب سے کہنا ہے کہ شہر کے جسم پر ان پھوڑے پھنسیوں کا علاج شہباز شریف اور پرویز الٰہی جیسے وزرائے اعلیٰ بھی نہیں کرسکے۔ لاہورکم و بیش پچاس برس سے ایل ڈی اے کے کرپٹ مافیا کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ ایل ڈی اے اور اس کے بعد بلدیہ کے کرپٹ افسران لاہور میں ہونے والی تمام ناجائز تعمیرات سے بھتے وصول کرتے رہے ہیں۔

مجھے نہیں علم کہ یہ لوگ اپنی قبریں سونے کی بنوارہے ہیں اور ان میں ہیروں سے مزین سلیبیں لگوا رہے ہیں، ان کے باپوں اور ان کے اپنی کفنوں کی جیبیں کتنی بڑی ہیں مگر مجھے یہ علم ضرور ہے کہ ان کرپٹوں اور بدبختوں نے پورے شہر میں لوگوں کو جگہ جگہ زندہ دفن کرنے کا اہتمام ضرور کر رکھا ہے۔ ابھی پیس کے ساتھ حفیظ سنٹر کو ہی دیکھ لیجئے، وہاں نہ پارکنگ کی جگہ ہے بلکہ بیسمنٹ تک فروخت کی گئی ہے اور نہ ہی وہاں آگ بجھانے کی کوئی سہولت ہے۔

میرا تو یہی کہنا ہے کہ جب کسی پلازے میں آ گ لگے اور وہاں پارکنگ سے آگ بجھانے کے آلات تک کی سہولیا ت نہ ہوں تواس کے مالکان کے ساتھ ساتھ پرانے دور میں اس کی منظوری دینے والے ایل ڈی اے اور بلدیہ کے افسران کو پکڑ لیا جائے اور اگر منظوری کے بغیر بنا ہوتو تب بھی انہیں نہ چھوڑا جائے۔ ان افسران کے ساتھ ساتھ اس دور کے مئیر، متعلقہ ڈپٹی مئیر اور وزیر بلدیات کو گرفتار کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر وہ مر چکے ہیں تو ان کی قبروں کو کھود کر ان کے ڈھانچوں پر گرفتاری ڈالی جائے۔ ان سے اور ان کی چھوڑی ہوئی حرام کی جائیدادوں سے نقصان پورا کیا جائے اور اگرکہیں کوئی ہلاکت ہو تو قتل عمد کا پرچہ درج کرتے ہوئے ان کو بھی لٹکا دیا جائے۔ ان بدبخت کرپٹ بااختیار لوگوں نے پاکستان کو عذابستان بنا کے رکھ دیا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply