جلے ہوئے شہروں کا نوحہ/محمد منیب خان

تجزیے کرتے کرتے دل اُوب گیا ہے، سیاسی مباحث کر کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔ امید کی ڈوری سے بندھے ہاتھوں پہ زخموں کےنشان ثبت ہو چکے ہیں۔ شعور اور  اصول ناپید ہو چکے ہیں۔ تاویل نے منطق کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ جمہور ہی جمہوریت کو تختہ مشق بنانے کو تیار ہے۔ فکر اور خیال اب چند لوگوں کی خواہش پہ یرغمال بنا دیا گیا ہے۔ اس سب کے بعد جو ہو سکتا تھا وہی نو مئی کوہوا؛ جلاؤ، گھیراؤ اور پتھراؤ۔

دیدہ بینا نے وہ کچھ دیکھا جو چشم تصور میں بھی نہیں لایا جا سکتا تھا۔ محبت کسی اصول اور ضابطے کے تحت نہیں ہوتی۔ اورحالیہ واقعات نے ثابت کیا کہ لوگوں کی محبت اب کسی دلیل اور منطق کو تسلیم نہیں کر رہی، وہ اپنے شعور کی سیرابی بس ایک ہی فکری جوہڑ سے کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجتاً سیاسی تعفن کے پھیلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ممکن ہے یہی اکثریت کا فیصلہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اقلیت محض دھونس سے یہ فیصلہ اکثریت پہ مسلط کرنا چاہتی ہو۔ جب لہجے جارحانہ ہو جائیں، الفاظ تلخ ہوجائیں، ارادے آگ بگولہ ہونے لگیں تو نظارے کا جل جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ پھر یہ تمیز بھی باقی نہیں رہتی کہ اکثریت کیا چاہتی ہے۔ کیونکہ اقلیت دھونس سے خود کو اکثریت ظاہر کرتی ہے۔

اب منظر نامہ تو جل چکا ہے اور جلے ہوئے پہ فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے ہلاکو ہو یا چنگیز، ہٹلر ہو یا موسولینی،طاقت کے نشے نے گردنیں روندیں اور شہر جلائے۔ لیکن محبوب ہوتا ہی وہ ہے جس کا  غلط بھی ٹھیک لگے۔ لہٰذا محبوب کی محبت میں شہر جل گیا تو بھی یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ حضور کا شوق سلامت رہے شہر اور بہت۔ لیکن اس جلے ہوئے شہر کی راکھ سےروشن مستقبل کی کوئی چنگاری نکلے گی؟ شاید نہیں، کیونکہ راکھ سے صرف سیاہی حاصل ہوتی ہے۔ یہ شہر جلانے والوں کے سیاہ ہاتھ دراصل میرا سیاہ مستقبل ہیں۔ جس میں سے کسی طرح  مجھے اپنے لیے اپنے ہم وطنوں کے لیے روشنی تلاش کرنا ہے۔

تسلط کی جنگ میں شہر ہی جلا کرتے ہیں، اقتدار کی جنگ جب کوئی اصول اور قاعدے تسلیم نہ کرے تو مقدر سیاہی ہوتا ہے۔ یہ جمہور کی جنگ نہیں ہے، یہ اقتدار کی جنگ ہے، بلکہ اقتدار کے لیے اپنا تسلط قائم کرنے کی جنگ ہے۔ دو بیلوں کی لڑائی میں عوام کہاں کھڑے  ہیں؟ عوام آٹے اور چینی کی لائنوں میں کھڑے  ہیں ۔ اور عوام ہر ایک کے اقتدار میں انہی لائنوں میں کھڑے  رہے ہیں ، لیکن ان کےحقوق کے لئے لڑنے والے مسندوں پہ براجمان بس شکائتیں کرتے رہے اور اپنی بے بسی کے رونے روتے رہے۔ لیکن قبضے کی جنگ میں انکی توانائی مثالی ہے۔ لیکن دور دور تک لائنوں میں کھڑے لوگوں کے لئے کوئی ایجنڈا موجود نہیں، کسی کو انکی کوئی پروا نہیں۔ بس میرا تسلط قائم ہو جائے۔

تسلط کی اس جنگ میں بنیادی انسانی حقوق کے محافظ بھی بس ایک ہی شخص کو تیز تر انصاف دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ عوام کے لاکھوں مقدمات کی شنوائی نہیں ہوتی اور مخصوص منصف آئے روز مخصوص اشخاص کو تیز تر “انصاف” پہنچانے کے لیے ہروقت تیار ہیں۔ لیکن مجھے گلہ نہیں کیونکہ جن کے مقدمے نہیں سنے جا رہے ان کو بھی کوئی گلہ نہیں۔ ان کا گِلہ مر چکا ہے

پچھلے وقتوں میں گاؤں کے چوہدری کے بیٹے نے مسلیوں کے گھر جلا دیے، خوب مار کٹائی کی اور ساتھ میں دھمکایا کہ اگر پنچائت میں کسی نے نام لیا تو اسکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا۔ پنچائت میں کیس پہنچا، پنچائیت نے فیصلہ کیا کہ یہ درست ہے مسلیوں کے گھر جلائے گئے ہیں لیکن آگ اور دھوئیں کیوجہ سے لوگ آگ لگانے والوں کو نہیں دیکھ سکے۔

یہ اور اس جیسی پنچائتوں کا احوال تفصیل سے بتانے کی ضرورت نہیں۔ حال کی طرف ہی دیکھ لیں، تیز تر ریلیف دینے کے لیے تاویل مل جائے گی کہ ملک تو جلا ہے، شہر تو بند رہے ہیں، املاک کو تو نقصان پہنچا ہے لیکن گرفتاری کا طریقہ کار غلط تھا۔

تسلط کی جنگ میں کوئی اصول نہیں ہوتا، یقین نہ آئے تو سوڈان کو دیکھ لیں۔ ہم کس راستے پہ ہیں؟ پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن کم از کم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جس راستے پہ فی الوقت چل رہے ہیں اس کی منزل خوشگوار نہیں۔ ہم جس سیاہ حال میں ہیں اسکامستقبل مزید تاریک ہے۔ تاریکی ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہو رہی ہے۔ کیونکہ جب تک ہم انسان رہتے ہیں ہم رستے تلاش کرتے ہیں،ہم کسی اصول اور ضابطے پہ جنگ لڑتے لیکن ہم جب طاقت کے نشے میں بدمست بیل بن جاتے ہیں پھر ہم اس خیال سے آزاد ہو جاتے ہیں کہ اصول اور اخلاق بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا؛

ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں فراز

Advertisements
julia rana solicitors

رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply