خواب اور زندگیاں۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

جب زندگی میں میسر مواقع حقیقت کا روپ دھارنے لگتے ہیں تو دوجانبی آئینے کی سطح پر ایک سمیٹریکل تصویر ابھرتی ہے، آئینے کے ایک جانب مابعدالطبیعیات کی دنیا سے منسلک خواہشات و خیالات ہیں جبکہ دوسری طرف انہی خواہشات کی مادی شکل میں بدلتی حقیقت ہے، انسان اسی آئینے کے اندرونی جانب سے نمودار ہوا اور اس کی اوپری سطح پر اپنا کردار ادا کر کے اسے واپس اندرونی جانب لوٹنا ہے، اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اداکار کسی دوسرے روپ میں واپس بھی آسکتا ہے، جیسے ہی رول بدلا، فرد نے پہلے کردار کو خیر باد کہا اور پردوں کے پیچھے سے لباس بدل کر دوبارہ نئے رول میں سامنے آجاتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فنکار اپنے نئے رول میں اس قدر منہمک ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ پچھلے کردار میں اس کا کیا روپ تھا، بلکہ شاید اس سے بھی آگے، فنکار گاہے اپنی حقیقی شناخت تک کو بھول بیٹھتا ہے ۔ لیکن جونہی آنکھوں پر چڑھا حجاب اٹھتا ہے تو فرد اپنے پہلے نبھائے کردار، یعنی اپنی پچھلی زندگی میں جھانکتے ہوئے یہ ادراک پاتا ہے کہ یہ اس کا پہلا جیون نہیں، اس سے پہلے بھی وہ ایک دو یا تین مختلف زندگیاں دوسرے روپ اور دوسرے ادوار میں گزار چکا ہے ۔
امریکی نفسیات دان ایان سٹیونسن نے ڈھائی ہزار سے زائد افراد کا ریکارڈ جمع کیا ہے جنہیں اپنی سابقہ زندگیوں سے متعلق تمام تفصیلات ازبر تھیں، ان میں بھاری تعداد بچوں کی تھی ، ایک دلچسپ کیس دو جڑواں بھائیوں کا تھا جو آپس میں کسی انجان زبان میں بات کرتے تھے، شروع میں والدین نے اسے بچگانہ بڑبڑاہٹ تعبیر کرتے ہوئے توجہ نہ دی لیکن جب بچے تین چار سال کی عمر کو پہنچے تو والدین کو معاملے کی سنجیدگی کا ادراک ہوا، ان بچوں کو جب لینگویئسٹ کو دکھایا گیا تو پتہ چلا کہ بچے ایک دوسرے کے ساتھ قدیم عبرانی زبان میں گفتگو کرتے ہیں. ایسے واقعات ہزاروں ہیں، آج بھی بالغ افراد کو کوئی ماہر نفسیات دان ہپناٹائیز کر کے ان کی سابقہ زندگی میں نہ صرف واپس لے جا سکتا ہے بلکہ انسان کے لاشعور سے جڑی ان پیچیدہ گانٹھوں کو سلجھا بھی سکتا ہے جو پہلی زندگی کے مشکل حالات کے دوران پروان چڑھیں۔
برطانوی ماہر نفسیات آرنلڈ بلیکسمین کا دعویٰ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنی دوسری تیسری یا اس سے بھی آگے کی زندگیاں جی رہے ہیں، لیکن سامنے کا سوال یہ ہے کہ کچھ استثناء کے علاوہ باقی افراد اپنی سابقہ زندگیوں کی یادداشت کیوں محفوظ نہیں رکھ پاتے؟
زیادہ تر افراد میں اس یادداشت کا ظہور زندگی کے پہلے سالوں میں ہی ممکن ہو پاتا ہے، اس کے بعد جونہی بچہ شعور کی دنیا میں قدم بڑھاتا جاتا ہے، یہ یادداشت مٹتی چلی جاتی ہے، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یادداشت نہیں مٹتی ، فرد اپنی آگہی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
ہر فرد اپنی گزشتہ زندگی سے متعلق آگہی پاسکتا ہے اگر وہ بیدار ہو جائے تو، بیدار اس خواب سے جو وہ جاگتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ یہ بات اب ثابت ہے کہ بچے کیلئے اپنی زندگی کے پہلے چار سالوں کے دوران خواب اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے ، ممکن ہے اس عمر میں بچہ اپنی گزشتہ زندگی یا زندگیوں سے متعلق آگاہی رکھتا ہو لیکن اس کے بزرگ شعوری جہان بینی کے نام پر اس کے ادراک پر پردہ ڈالتے ہوئے اس کا منہ بند کر دیتے ہیں ۔شاید بزرگوں کو یہ لگتا ہے کہ بچہ شعور و آگاہی سے عاری ہے، لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، یہ بات درست ہے کہ دنیا میں بقاء کے سماجی ضابطوں سے وہ اس عمر میں واقف نہیں ہوتا لیکن خود آگہی یا ادراک میں وہ اپنے بزرگوں سے کہیں آگے ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑوں کی اکثریت جاگتے ہوئے خواب والی کیفیت میں جی رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے پہلے تین چار سالوں اور سابقہ زندگیوں کی یادداشت نہیں رکھتے۔
ہر نئے جنم کے بعد جب بچے کو جہاں بینی کا فن سکھا دیا جاتا ہے تو فرد کا لاشعور پیچھے والی سیٹ پہ جا بیٹھتا ہے اور اسٹیرنگ پر عقل براجمان ہوجاتی ہے۔
پیدائش کے وقت عقل گویا کہ ایک کورا کاغذ ہے جس پر فرد کے اقارب پرورش کے نام پر اپنی سوچ کے مطابق سیاہی بکھیرتے جاتے ہیں اور انہی سیاہ نمونوں کے مطابق بچہ اپنی حقیقت اور دنیا کے وجود کی ایک تصویر بناتا ہے، جس قدر گاڑھی سیاہی سے اس کاغذ پر “کوائف”کا اندراج کیا جائے گا، لاشعور اور عقل کے درمیان فاصلے اتنا زیادہ ہوگا اور آگہی کی دولت سے دامن خالی ہو رہے گا۔
آگہی اپنی ساخت میں درحقیقت توجہ اور ادراک کا مرکب ہے، پیدائش کے بعد ایک نومولود کا ادراک اپنی خالص ترین حالت میں ہوتا ہے، اس کی چھٹی حس، گیان اور پیش گوئی کی صلاحیتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، کیونکہ اس کا لاشعور آئینے کے مابعدالطبیعیاتی جانب دسترس رکھتا ہے، ایسے میں بچہ دنیا کو بعینہ ویسے ہی دیکھتا ہے جیسی وہ حقیقت میں ہے، لیکن جاگتے میں خواب دیکھنے والے بالغ افراد اس بچے کو پکڑ کر خوابوں کی اس تنگ گلی میں لے جاتے ہیں جہاں کے وہ مکین ہیں اور اس تنگ گلی کا نام انہوں نے ،شعور کی دنیا، رکھ چھوڑا ہے ، شعور کہ اس دنیا میں بچے کو جس رسی سے گھسیٹ کر لایا جاتا ہے، وہ توجہ کی رسی ہے، ہر معاملے میں بچے کو سمجھایا جاتا ہے، ادھر دیکھو، یہ مت کرو، مجھے سنو، اس طرف نہیں جانا وغیرہ جیسے جملے بچے کی توجہ کو ایک نکتے پر سمیٹتے ہوئے تنگ گلی میں لے آتے ہیں، جب فرد کی توجہ کو اغواء کر لیا جائے تو ادراک کا دائرہ محدود ہوتا جاتا ہے، آگہی متاثر ہوتی ہے اور فرد اس کیفیت میں دھنستا چلا جاتا ہے جسے جاگتے میں خواب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
سادہ سی مثال یہ ہے کہ جب فرد کی توجہ اپنے پیروں کی طرف ہو کہ چلتے ہوئے کوئی ٹھوکر نہ لگ جائے تو ایسا فرد اطراف کی دنیا اور اس دنیا میں موجود مظاہر سے بے خبر رہتا ہے، زندگی کے سفر میں سماجی بقاء کی جو تعلیم ہمیں دی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی توجہ پیروں کی طرف رکھو کہ سفر بخیریت اور بغیر حادثات کے گزرے لیکن نتیجے میں ہم آگہی و ادراک کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply