افسانے ہی رہ گئے ہیں سنانے کو۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

اس کی بیوی سامنے ہی فرش پر بچھے گدے پر لیٹی لحاف کے اندر کسمسا رہی تھی اور وہ کچھ دور پلنگ پر ٹیک لگائے ، ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ادق سی کتاب پڑھتے، باوجود اس کی قربت پانے کی اپنی خواہش پر، اس کی کل کی تلملاہٹ کو یاد کرکے، جب اس نے اسےاپنے قریب ہونے کا حد درجہ برا مناتے ہوئے چلانا شروع کر دیا تھا، سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے اس کے من میں بھی اس کے قریب آنے کی خواہش کلبلا رہی ہو، تبھی کسمسا رہی ہے لیکن وہ چند منٹ بعد ساکت ہو گئی تھی اوراس کی لمبی سانسیں بتا رہی تھیں کہ وہ تو واقعی سو گئی۔

اگراس کی زندگی گذارنے کا عام سا سچ بھی کسی کو بتا دیا جاتا اوراسے پتا چل جاتا، جو وہ اپنی عادت کے تحت اسے عام سی بات سمجھ کے خود ہی بتا دیا کرتا تو وہ اسے دروغ گوکہتی اوراسے اپنی توہین کیے جانا خیال کرتی، چیخ چیخ کے کہتی،” میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔ کس قدر نفرت کرتی ہوں، اس کا آپ کواندازہ ہی نہیں”۔

جب وہ کہتا کہ بھئی یہ کوئی ایسی بات ہی نہیں ‌جس پر سیخ پا ہوا جائے، پرسکون ہو جاؤ تو وہ اسی لہجے اور اسی اونچی آواز میں کہتی کہ جب تک آپ یہاں ہیں کوئی سکون ہو ہی نہیں سکتا۔ بچے بھی یہی کہتے ہیں کہ جب پاپا نہیں ہوتے آپ کا ہم سے سلوک اچھا ہوتا ہے۔ پاپا آتے ہیں تو آپ ہمیں ڈانٹنے اور پیٹنے لگتی ہیں۔ اس لیے کہ آپ اپنے رویوں سے میرا دماغ خراب کر دیتے ہیں۔ وہ حیران ہوتا کہ کیا اس کا ہی دماغ خراب ہوتا ہے؟ کیا دوسروں پراس کے یک دم بدل جانے والے رویے کا اثر نہیں ہوتا؟ وہ اپنی کہے جاتی دوسرے کی سنتی تک نہ۔

اس کی نفسیات کا کوئی معاملہ تھا جس کے سبب اسے حاکمیت کی نہ صرف عادت تھی بلکہ ایسا کیے جانے کا چسکا تھا۔ ایسا نہیں کہ وہ بچوں سے پیار نہیں کرتی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ بچے فوجیوں کی طرح چاق و چوبند رہیں اور سب کام اسی طرح کریں جیسا وہ چاہتی ہے۔ مگر آخر کار بچوں میں باپ کی عادات کا بھی تو کوئی پرتو منتقل ہونا تھا۔ وہ تینوں اپنی مرضی کے مالک تھے، اگرچہ ماں سے ڈرتے بھی بہت تھے، جو بچے ڈرا کرتے ہیں وہ لامحالہ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ وہ بچوں کا کہا جھوٹ پہچان لیتی یا پکڑ لیتی جیسے کہ بچی نے کہہ دیا کہ اس نے اپنے سارے کپڑے تہہ کرکے ترتیب سے الماری کے اپنے حصے میں رکھ دیے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بچوں کے جھوٹ پراسے بے تحاشہ غصہ آتا اور وہ ان کو زبانی اورعملی طور پررگید کے رکھ دیتی۔
باپ نے بچوں کے نام ان کی عادات کے مطابق رکھ دیے تھے۔ بڑے بچے کا نام تھا،” میں بھول گیا ” اور بچی کا نام تھا،” ابھی۔۔۔۔ میں جانتی ہوں” یہ وہ الفاظ تھے جو وہ کثرت سے استعمال کرتے۔ بچہ جو نہ کرنا چاہتا تووہ بھول گیا تھا،کہہ دیتا۔ ظاہر ہے جب نگاہیں موبائل فون پرانٹرنیٹ استعما کرنے میں مصروف ہوں گی تو کیا یاد رہے گا۔ بچی کا کہا “ابھی” جھوٹ ہوتا اور مجھے معلوم ہے غلط چونکہ اگر اسے معلوم ہوتا تو جو کام کہا تھا یا جو ذمہ لگایا گیا تھا اسے ہرروز دس بار یاد نہ کرانا پڑتا۔ چھوٹا تو تھا ہی چھوٹا، اس کا نام تھا،” مجھے دو۔ میں چاہتا ہوں۔” ٹی وی چینل اس کی مرضی کا لگا رہے گا۔ بڑے بہن بھائی کچھ اور نہ دیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک جانب وہ شوہر کو بچوں کی تربیت نہ کرنے کا الزام دیتی تو دوسری جانب جب وہ بچوں کو کچھ سمجھانا چاہتا تو اسے اعتراض ہوتا کہ آپ اونچا بولتے ہیں۔ اس کے اونچے بولنے کی سزا بھی بیٹے کو ملتی۔ اسے سمجھ نہیں پاتا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ لوٹ جانے کو اس کا جی نہیں چاہتا اورایسے حالات میں رہنا بھی کیا رہنا جہاں میاں بیوی اجنبی بن جائیں۔ اس نے اس کے کینہ کو کم کرنے کی خاطر، اس سے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی مگر اس کی رٹ یہی ہوتی کہ مجھے کچھ نہیں سننا۔ میرا کام کھانا پکا دینا ہے بس، اس کے علاہ مجھ سے کوئی امید مت رکھیں۔ کھانا ہو تو نکالیں، گرم کریں اورکھا لیں۔امید نہ رکھے جانے کی بات تب کہی جب اس نے کہا کہ میرا ایک بٹن تو شاید مضبوط کر دیا مگر یہ ایک بٹن جھول رہا ہے۔ امید نہ رکھنے کا کہہ کے ساتھ ہی کہا یہ پڑے ہیں سوئیاں دھاگے۔ اس نے کہا،” کمینگی کی بھی حد ہوتی ہے،” کون ہے کمینہ، گریبان میں جھانک لیں، جب اس نے یہ سنا تو فوراً نماز کی نیت باندھ لی۔ نماز پڑھتے سوچا کیا کہ اب افسانے ہی رہ گئے سنانے کو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply