پاکستان میں صحافت کا بدلتا ہوا منظرنامہ۔۔محمد عدنان

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں میڈیا ایک کم معاوضہ دینے والی صنعت ہے۔ عالمی معاشی بحران اور کورونا نے اس صنعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافیوں کےمستقبل کو مزید تاریک کردیا ہے۔ پاکستان میں نوجوان صحافیوں کو اکثر تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والا ایک جونیئر نیوز رپورٹر عام طور پر تقریباً 20ہزار سے لیکر 35 ہزار پاکستانی روپے کماتا ہے۔ جبکہ ایک سینئر صحافی اور بروڈ کاسٹر کی تنخوا 60 ہزار پاکستانی روپے سے لیکر ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ کم تنخواہ والا عملہ جو پاکستان میں کسی بھی میڈیا ادارے کا تقریباً 80 فیصد ہوتا ہے اسے اپنے ادارے سے کسی قسم کا میڈیکل انشورنس حاصل نہیں ہوتا۔

ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا نے سامعین تک پہنچنے اور مطلع کرنے کے اپنے طریقوں میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے ظہور نے نہ صرف میڈیا کے بڑے اداروں کے لیے سرمایہ کاری کےنئے راستے کھولے ہیں، بلکہ آزاد صحافیوں کو پیسے کمانے اور قیمتی تجربہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تاہم، پاکستان میں میڈیا اب بھی تبدیلی کے عمل میں ہے۔ ایک طرف جہاں میڈیا ہاؤسز اور آزاد صحافی خبریں جمع کرنے اور رپورٹنگ کی جدید ضروریات کے مطابق خود کو ڈھال رہے ہیں۔ وہاں دوسری طرف سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز نے غلط معلومات اور غیر معیاری خبروں کے لیے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ کووِڈ- 19 کے دوران جعلی خبروں کا پھیلاؤ اس مسئلے کی موجودگی کی بہترین مثال ہے۔

پاکستان میں میڈیا کے ارتقاء کا اندازہ تقسیم ِہند سے پہلے کے سالوں سے لگایا جا سکتا ہے جب قائداعظم محمد علی جناح نے 1941 میں “ڈان” اخبار کی بنیاد رکھی۔ تاہم، پاکستان میں نجی الیکٹرانک میڈیا کا عروج ایک حالیہ واقعہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی نجی میڈیا انڈسٹری نے پاکستان میں پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے دوران کامیابی کی نئی منازل طے کی ہیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق آج ملک میں 40 سے زائد نجی سیٹلائٹ نیوز چینلز ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بغیر کسی سنسر شپ اور حکومتی دباؤ کے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے جہاں عوام کو اظہارِ رائے کا موقع فراہم کیا وہاں خبروں کی پرائمنگ اور فریمنگ (Agenda-setting theory) پر حکومت کی اجارہ داری ختم کر دی ہے۔ لیکن نجی میڈیا تنظیموں کے غیر معیاری معاشی ماڈلز نے انہیں حکومتی حمایت پر منحصر کرکےحکومت کو اشتہارات کے ذریعے انکی ادارتی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

میڈیا ہاؤسز کا اپنی ادارتی پالیسیوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے موقف کے مطابق چلانے کی رَوِش نے بھی نہ صرف میڈیا ہاؤسز کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ ان میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کی صحافت اور شہرت پر بھی بُرے اثرات مرتب کیے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ادارہ جاتی پالیسیوں کے علاوہ، صحافیوں کو آزادی اظہار کے اپنے بنیادی حق کے استعمال کے لیے تشدد اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافیوں کے غیر میڈیا پس منظر نےبھی اخلاقی مسائل کو جنم دیا ہے۔ جیسے ایک مریض کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس ڈگری کا ہونا لازم ہوتا ہےویسے ہی ایک صحافی کو خبریں جمع کرنے, انھیں ترتیب دینے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے صحافت کی تعلیم کا ہونا ناگزیر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میڈیا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی شمولیت نے معلومات کی فراہمی کے عمل کو نہ صرف تیز رفتاری سے ہموار کیا ہے بلکہ اس کو شفاف اور آسان بنا دیا ہے۔ تاہم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے کے لیے وسائل کی کمی نے پاکستان میں صحافیوں کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال نہ صرف معیار کو بہتر بناسکتا ہے بلکہ ملک میں میڈیا کے کاروبار کو بہتر اور مزید منافع بخش بنا سکتا ہے۔ غیر مستند اور غیر معیاری خبروں کے اس دور میں ضروری ہے کہ نئے آنے والے صحافیوں کو صحافتی اخلاقیات کے ساتھ ساتھ جدید دور کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال سے روشناس کیا جائے تاکہ وہ اپنی کہانیوں کو دیانتداری اور صداقت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے محافظ بھی بن سکیں۔

Facebook Comments

محمد عدنان
محمد عدنان ایک نوجوان صحافی اور محقق ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply