احمد پور شرقیہ سانحہ – پس منظر اور میڈیائی ہڑبونگ

یوں تو اس ملک میں اب ایک چیونٹی بھی مسلی جائے تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے ہمارے آزاد ذرائع ابلاغ کی بدولت ,مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہاتھی کے مرنے کی بھی خبر نہیں ملتی۔بہرحال میں احمد پور شرقیہ کے قومی سانحے کے تین دن بعد آج اس پر قلم عین اسلامی روایت اور شرعی حکم کے تحت سوگ والے تین دن گزار کر اٹھا رہا ہوں۔بات کریں احمد پور شرقیہ, بہاولپور آئل ٹینکر حادثے کی تو یہ ایک بہت ہی دردناک اور عبرت ناک حادثہ تھا۔اس حادثے سے بحیثیت ایک صحافی اور بلخصوص ایک انسان ہونے کے ناتے غیر علم رہنا یا اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔اب تفتیشی رپورٹس بھی آنا شروع ہوگئیں ہوں گی،جن میں عوام کی تسلی و تشفی کی خاطر کچھ اس نوعیت کے فیکٹس شامل کیئے گئے ہوں گے۔۔کہ حادثہ ڈرائیور کی غلطی سے پیش آیا،یاانتظامیہ نے پروٹوکولز نظر انداز کردئیے، کسی تھرڈ گمنام پارٹی مثلاٍ ً بس کوچ وغیرہ کی غلطی کی نشاندہی کی جائے گی،طبی سہولیات کا فقدان رہا،ایمرجنسی ریسپونڈ ریسکیو ٹیمیں دیر سے پہنچیں،اور پتہ نہیں کیا کیا اور کیسے کیسے بلائنڈ فیکٹس پر مبنی رپورٹس بنیں گی۔

لیکن کیا ان رپورٹس کی مدد سے جلنے مرنے والوں کو زندگی واپس مل جائے گی؟کیا دوبارہ ایسے حادثات رونما نہیں ہوں گے؟کیا ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟۔صاحبو! یہ سب باتیں کاغذ کالے کرنے اور دل کی تسلی کےلیئے بہت زبردست ہیں مگر پس منظر اور اصل حقائق بہت ہی خطرناک اور حیران کن ہیں۔یہ بات کوئی سن 2009 سے 2012 تک کی ہے جب میں اپنے والد محترم کے ساتھ ان کے پیٹرولیم ایجنسی کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا۔مجھے تب اوائل جوانی کے دنوں میں اس کاروبار سےمنسلک ایسے ایسے راز جاننےکا اتفاق ہوا کہ میرے خیال میں ایک عام پاکستانی اس دشت کےان رازوں کو شاید ادھیڑ عمری میں جاکر ہی جان پاتا ہوگا۔میں چند ایک ایسے فیکٹس آپ قارئین کی نذر کروں گا جو آپ کو آئندہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات کا پس منظر سمجھنے میں مدد دیں گے۔

سب سے پہلے آپ کو یہ بات پورے وثوق اور اپنے ناقص علم کے بل بوتے پر بتاتا چلوں کہ جنوبی پنجاب کی یہ پٹی جو کوٹ سبزل, صادق آباد سے شروع ہوکر احمد پور شرقیہ, بہاولپور تک جاتی ہے آئل ٹینکرز کے روزانہ اوسطاٍ ً ایک سے دو حادثات کا گڑھ ہے۔یہاں کی سالانہ حادثات کی رپورٹ اگر مل سکے تو میرے دعوے کی تصدیق ہوجائے گی۔ان حادثات میں سے %30 حادثے اتفاقی اور %70 فیصد حادثے طے شدہ منصوبے کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔اب سوچیں گے اور شاید اعتراض بھی کریں کہ وہ کیسے؟۔۔۔۔تو جناب اس کا بھی جواب حاضرہے اور وہ منطقی جواب ہے۔

ایک بائیس وہیلر آئل ٹینکر میں عام طور پر 50000 سے 55000 ہزار لیٹر تیل (پٹرول, ڈیزل, ہائی آکٹین اور مٹی کا تیل) محفوظ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔لیکن عام طور پر دو سے تین ہزار لیٹر تیل کم لوڈ کیا جاتا ہے حفاظتی نقطہ نگاہ سے کیونکہ تیل کے فیومز کسی دھماکے کا باعث نہ بنیں یہ بہت ضروری اقدام ہوتا ہے آئل کمپنی کی جانب سے۔ٹینکر فلی انشورڈ ہوکر نکلتےہیں۔ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات ان دونوں باتوں سےواقف ہوتے ہیں۔جس سفری پٹی کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ مل کر بلوچستان اور سندھ و پنجاب کی تکون بناتی ہے ،مطلب سندھ, پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی ملاپ سےمتصل سفری پٹی ہے جہاں معاشی اور اخلاقی جرائم کا کثرت سے ہونا ایک عام سی بات ہے۔انہی جرائم میں ایک ایسا جرم بھی ہے جو ماہانہ کروڑوں کا صرف منافع ہی منافع دیتا ہے بغیر کسی قانونی کار روائی اور جھمیلے میں پڑے۔وہ جرم کچھ اور نہیں تیل کی کالا بازاری ہے بازار سے آدھے یا کم نرخ پر ان ڈرائیور حضرات کی جانب سے جو کراچی سے اندرون ملک آئل کی سپلائی بذریعہ آئل ٹینکر لے کر جاتے ہیں۔یہ جرائم پیشہ ذہنیت والے ڈرائیور جب اس پٹی پر آتے ہیں تو ڈیل کے مطابق پٹرول ایجنسی والوں یا سمگلروں کو آدھی ٹینکی تیل کی بیچ کر باقی کا تیل حادثے کی نذر کردیتے ہیں ،جان بوجھ کر ٹینکر الٹا کر۔

جب حادثے کی انکوائری ہوتی ہے تو حسب معمول کسی طرح کی مکینیکل یا ایسی ٹھوس وجہ دریافت اور ریکارڈ ہوتی ہے جس کے رہتے یہ ڈرائیور صاف نکل جاتے ہیں۔بعض اوقات کمپنیوں کے وہ عہدے دار جو انکوائری رپورٹ مرتب کرتے ہیں کچھ لےدے کر ایسی رپورٹ جمع کرتے ہیں جس میں ڈرائیور قصور وار نہ ہو۔مالکوں کو انشورنس کی تگڑی رقم مل جاتی ہے جبکہ ڈرائیور تھوڑا سا رسک لے کر لاکھوں کروڑوں کما لیتے ہیں۔یہ کوئی ایک دو لوگوں کا کام نہیں بلکہ ایک منظم مافیا اس کاروبار سےمنسلک ہے۔حادثات پورے ملک میں ہی ہوتے ہیں مگر یہ سفری پٹی خاص کر آئل ٹینکرز کے حادثوں کے لیئے مشہور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال اس دن کا حادثہ ڈھول کے پول کھول گیا ہے۔اب اگر انتظامیہ واقعی ایسے حادثوں سے نمٹنے اور ان کوروکنے کی خواہش مند ہے تو اس حادثے اور سابقہ حادثات کی کڑیاں ملائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔اس دن کا حادثہ اتفاقی تھا یا طے شدہ؟ انتظامیہ اس ایک نقطے سے تفتیش کا آغاز کرے تو شاید کافی خوفناک انکشافات سامنے آئیں گے جو صحیح رپورٹ مرتب کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔تینوں طرح کے میڈیا نےانجانے میں اور انسانی ہمدردی کے تحت اس حادثے پر صرف رسپونڈ نہیں کیا بلکہ الگ الگ طریقے سے ہڑبونگ مچاکر اصل حقائق کو مسخ کرنے کی لایعنی سی کوشش کی ۔بات کو اس نتیجے کے ساتھ سمیٹوں گا کہ اس دن حادثہ ہونے سے لےکر انجام پذیر ہونے تک ہر کردار ہی قصور وار اور شامل حال تھا۔ڈرائیور وکنڈیکٹر, تیل چور عوام, انتظامیہ اور یہ بدبو دار سسٹم غرض یہ سبھی کے سبھی اس قیامت صغراں کے ذمہ دار اور قصور وار ہیں۔اﷲ عوام کو ہدایت اور سمجھنے کی توفیق دے۔آمین

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply