وزراء کی پیش گوئیاں۔۔محمد اسد شاہ

بہاول پور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جلسہ بلا شبہ ایک کامیاب جلسہ تھا ۔ حکومتی ترجمانوں اور وزراء کا تو شاید “نوکری” کا مسئلہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے ہر جلسے سے پہلے قوم کو کرونا وائرس سے ڈرائیں اور دہشت گردی کے خطرے کا شور مچائیں ، پھر جب جلسہ شروع ہو جائے تو حاضرین کی تعداد کو کم سے کم کر کے ناکام جلسہ قرار دیں ، اور جیسے ہی جلسہ ختم ہو ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپوزیشن لیڈرز ، خصوصاً محترمہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی تقاریر کے جواب میں طعنے بازیاں ، تضحیک اور ذاتی کردار کشی کریں ۔ لیکن ایک قلم کار کا فرض ہے کہ وہ معاملات پر اپنی دیانت دارانہ رائے دیتے ہوئے ، بے لاگ تجزیہ کرے ۔ حکومت وقت کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا ، اور اپوزیشن پر تنقید کرتے رہنا بہت آسان کام ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے دیگر شعبوں کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی آسان کام کے لیے لوگ بھی بہت دست یاب ہیں ۔ لیکن ہوس سے پاک رہتے ہوئے ، اپنے ضمیر کی آواز پر حق کو حق لکھنا ، غلطیوں پر تنقید کرنا اور دل کی گہرائیوں سے ملک و قوم ، اور آنے والی نسلوں کی اصلاح کے لیے لکھنا ایک قلم کار کی زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہیے ۔

نوکری برائے فروخت۔۔آغرؔ ندیم سحر

خیر ، ہم بات کر رہے تھے حکومتی ترجمانوں کے انداز کار پر ۔ جمہوری حکومتوں کے وزراء کی تعداد پر سخت تنقید کرنے والے عمران خان نے بارہا یہ وعدہ کیا کہ وہ وزیراعظم بن کر 15 یا 20 سے زائد افراد کو کابینہ میں شامل نہیں کریں گے ۔ (میں نے جمہوری حکومتوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ خاں صاحب نے کسی غیر جمہوری حکومت یا آمریت پر تنقید نہیں کرتے ۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز تک ، سب کی تعریف ہی کرتے پائے گئے ہیں۔ ) لیکن کرسی پر آتے ہی جو حال ان کے دیگر لاتعداد وعدوں اور دعوؤں کا ہوا ، وہی حشر اس وعدے کا بھی ہوا ۔ انھوں نے انتہائی بھاری بھر کم کابینہ بنا کر ماضی کی حکومتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ۔ وزراء ، ترجمانوں ، مشیروں ، معاونین اور معاونین خصوصی کا ایک جم غفیر خاں صاحب نے اپنے گرد جمع کر رکھا ہے ۔ ان میں اکثریت غیر منتخب ، اور ایسے لوگوں کی ہے جن کا خود پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ غریب ملک کے مہنگائی میں پسے عوام کے بجٹ سے بڑی بڑی تنخواہوں ، مراعات اور سہولیات حاصل کرنے والے لوگوں کی اپنے اپنے محکموں میں کارکردگی کیسی ہے ، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ کیوں کہ ان کے دن رات کا بیشتر وقت تو اپوزیشن کے سرگرم راہ نماؤں کے ذاتی معاملات ، سوشل میڈیا اکاؤنٹس ، تقاریر ، بیانات ، ذاتی زندگیوں اور مشاغل پر “تحقیق” کرنے ، اور مخالفانہ بیان بازیاں کرتے رہنے میں ہی گزرتا ہے ۔ انھیں ، اور خود خاں صاحب کو بھی آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اب “اپوزیشن” میں نہیں ، بلکہ حکمران بن چکے ہیں ۔ اسی طرح کابینہ کے ارکان وقتاً فوقتاً یہ بھی بتاتے رہتے ہیں کہ اپوزیشن کے کون کون سے لوگ کب کب گرفتار ہونے والے ہیں ، کس کس کو پیشیاں بھگتنا ہوں گی ، کس کس کی ضمانت منسوخ ہونے والی ہے اور کس کس کو سزا سنائی جانے والی ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ پیش گوئیاں وہ کسی “روحانی” طاقت کے بل بوتے پر کرتے ہیں یا نیب اور عدالتی امور پر انھیں کوئی غیر مرئی علم حاصل ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ جن لوگوں کا سارا دھیان اور توجہ ان “ضروری” کاموں کی طرف رہے گی، انھیں وقت پر اپنے دفاتر پہنچنے ، محکمانہ فائلز کھولنے ، غور سے پڑھنے ، سمجھنے ، مشورہ کرنے ، قوم کے مسائل کا حل تلاش کرنے ، اور پھر بہتر فیصلے کرنے کی فرصت کہاں ملتی ہو گی ۔ شاید اسی وجہ سے ان کی محکمانہ کارکردگی کا وہ حال ہے جو نظر آ رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پشتونوں کا جینیاتی مطالعہ اور حقیقت۔۔ملک گوہر اقبال خان رماخیل

بات پی ڈی ایم کے بہاول پور جلسے سے شروع ہوئی تھی ۔ پی ڈی ایم میں زرداری صاحب کی موجودگی اور شمولیت ایک سوالیہ نشان ہے ۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ، دو ایسی جماعتیں ہیں کہ جن کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی نارضی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ جانے مولانا فضل الرحمٰن ، میاں محمد نواز شریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے کیسے یہ یقین کر لیا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہے ، جب کہ وہ موجودہ بندوبست میں حصے دار بھی ہے ۔ 2018 میں راتوں رات بلوچستان حکومت تبدیل کروانے اور پھر سینیٹ الیکشن سے اب تک وہ نہایت فرماں برداری سے “ارباب بست و کشاد” کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں پنجاب میں ن لیگ کو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود صوبائی حکومت بنانے نہیں دی گئی ، وہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کا راستہ نہیں روکا گیا ۔ سینیٹ میں بھی ان کا ڈپٹی چیئرمین موجود ہے ۔ 2018 میں صدر اور وزیراعظم کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی نے متحدہ اپوزیشن کی کشتی میں سوراخ کیے اور موجودہ حکومت کے قیام کی راہیں ہموار کیں اور پھر وکٹ کے دونو اطراف کھیلتے ہوئے اپوزیشن میں بھی بیٹھ گئی ۔ پی ڈی ایم کے آغاز سے جب استعفوں کی بات چلی ، تو حکومتی وزراء بار بار یہ بتاتے آ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی ، بل کہ پی ڈی ایم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر تماشہ بھی بنا سکتی ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ وفاقی وزراء کی یہ پیش گوئیاں پوری ہوتی ہیں یا نہیں !

Facebook Comments