افغانستان کی موجودہ صورتحال ۔۔شہزاد سلیم عباسی

افغانستان کا سب سے بڑامسئلہ اس کے خراب اندرونی حالات ہیں۔ شورش کہیں یا معاشی قحط، وہاں ہر کوئی مارنے کو دوڑتا ہے۔افغانستان میں شدید سردی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ بچے، بوڑھے اور خواتین تکلیف دہ حالات سے گزر ے ہیں۔ اسلام آباد میں آج کل 19 جب کہ کابل میں 7 سینٹی گریڈ چل رہاہے۔ اس وقت یہاں کی نصف آبادی شدید ترین معاشی مسائل میں گِھری ہے۔ کھانے پینے کو پیسے نہیں ہیں۔ راشن، خوراک یا ضروریات زندگی کی کوئی شئے خریدنے کی بساط اب باقی نہیں ہے۔ سامان خریدنے کے لیے دو کروڑ لوگوں کے پاس نقدی نہیں ہے۔ آ پ اندازہ لگائیں کہ جب ایسی صورتحال جنم لیتی ہے تو پھر معاشروں میں کیسے کیسے جرائم جنم لیتے ہیں۔ پھر ان جرائم کی شرح نمو کو تلوار یا کوڑے کے زور پر قابونہیں کر سکتے اور  نہ  ہی ان عزائم کی سختیوں اور جذبات کو شکست دی جا سکتی ہے جو خوشحالی اور آسودگی رخصت ہو جانے کے بعدپیدا ہوا کرتی ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ” قریب ہے کہ فقر(غریبی)کفر بن جائے “۔

20 سالوں کے بعد 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول سنبھالتے ہی واشنگٹن نے عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں پر زور دے کر افغانستان پر اپنی شفقت کے دروازے بند کر دیے۔ اس صورتحال نے پاکستان کے حالات کو بھی متاثر کیا ہے۔ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغانیوں کو مستقل ٹھکانہ دیے  ہوئے ہے۔ جب کہ پاکستان کے آج کے حالات پر نظرڈالی جائے تو وہ بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی ناجائز شرائط پر قرضہ لینے کی وجہ سے تقریبا ً ہر پاکستانی 2 لاکھ سے زائد کے قرضے کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔ طالبان نے جس دن حکومتی نظم و نسق سنبھالا، اسی دن سے ہی سنگین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہر آنے والا دن مشکلات اور مسائل  کا انبار لا رہا ہے۔ طالبان جیسے ممالک جو عالمی آشیر آباد کے بنا ایک قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ طالبان کے آتے ہی وہ آشیر باد ہٹ چکی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی چھتریاں بھی بند ہوگئیں ہیں۔ امریکہ نے کابل سے نکلتے ہی  فنڈز پر تالا لگا دیا ہے۔ افغان حکومت کے جو فنڈز بیرون ملک تھے وہ ضبط کر لیے گئے۔ بینکنگ سیکٹر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اگرچے طالبان حکومت ابھی تک یقین دہانی کرارہی ہے کہ ہم اپنی زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اور خواتین کی جائز آزادی اور تعلیم اور انصاف کے نظام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے مگر اس سب کے باجود بھی عالمی طاقتوں کی طرف سے جواب ندارد۔

پاکستان بین الاقوامی ڈونر اداروں سے آنے والی امداد کی واحد سپلائی لائن ہے۔ افغانستان کے سنگین انسانی بحران سے دنیا نے اپنی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں۔ افغانی اس وقت پرانی بچی کچی روٹیاں، پودے اور جلے ہوئے ڈرائی فروٹس کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔مزدوری کی صورتحال یہ ہے کہ افغانی کو مزدوری کے بدلے نقدی کی جگہ تھیلا مل رہا ہے۔افغان حکومت کے پاس نقدادائیگی کا کوئی انتظام ہی موجود نہیں۔مشرق وسطی، چین اور روس کے بعد اب افغانیوں کے حالات کی تما م تر ذمہ داری پاکستان  پر  آن پڑی ہے۔پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ار بوں ڈالرزکا نقصان اور اسّی ہزار جانیں قربان کر چکا ہے۔پاکستا ن اس پوزیشن پر نہیں کہ وہ اکیلے افغانستان کو تسلیم کر لے مگر اسے عدم استحکام سے دوچار کرنا بھی اس کے مفاد میں نہیں ہے۔پاکستان افغانستان کے لئے فضاء ہموار کرنے کی کوشش میں ہے۔ کیوں کہ افغانستان میں خانہ جنگی یا افراتفری کسی فریق کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ  پاکستان کی کوششوں سے کچھ امدادی سامان افغانستان پہنچا ہے۔ مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔دنیا بھرکے صاحب ثروت افراد اور بالخصوص پاکستان کے اداروں اور این جی اوز کو چاہیے کہ وہ اپنے افغانی بھائیوں کا بھی خیال رکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply