خون بہانے کا انجام ؟۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

انسانی فطرت کو سمجھنا اور پرکھنا اتنا ہی مشکل اور پیچیدہ ہے جیسے کسی چیز کی دریافت میں صدیاں بیت جاتی ہیں ۔ انسانی فطرت کا ہر پل بدلتا ہوا مزاج کئی سوال اٹھاتا ہے۔اس مثل کی طرح” گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولہ” ۔عصر ِحاضر میں اٹھتا ہوا بھروسابنی آدم کو خزاں کے موسم میں داخل کر رہا ہے ۔کیونکہ وہاں سوائے پت جھڑ اور اُجڑنے کے   اور کوئی نشان نہیں ملتا ۔انسانی فطرت عموماً اس وقت گناہ آلود ہوتی ہے جب اس میں حرص و ہوس کی انتہا ہو جائے ۔لالچ اس کے دل کے دروازے پر بیٹھ جائے ۔اس کی سوچ منتشر ہوجائے ۔گناہ پر گناہ سرزد ہونا شروع ہو جائے ۔فطرت کو گناہ کا ناسور چاٹنا شروع کر دے ۔خود غرضی کی انتہا ہو جائے ۔سرخ خلیات میں سفید خلیات کی زیادتی ہو جائے ۔جسم و روح ناپاک رہنا شروع کر دے تو انسان گناہ کی دلدل میں بُری طرح پھنس جاتا ہے۔اس کے پاؤں کی قوت دلدل چوس لیتی ہے ۔انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے ۔کبھی وہ اپنے آپ کو اوپر اٹھتا ہوا محسوس کرتا ہے اور کبھی نیچے کی طرف ۔

انسانی فطرت جب گناہ کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہے تو سب سے پہلے اس سے چھوٹی چھوٹی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔جو بڑھ کر بڑے بڑے گناہوں تک سمجھوتا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسے  سوچ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اسی طرح گناہ کی بھی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔اس میں یہ خاصیت و تاثیر موجود ہے کہ یہ بغیر رنگ نسل اور مذہب کے گھائل کرتا ہے ۔کسی انسان کا خون بہانا خدا کی غیرت کو جوش دلانا اور انسانیت کا وہ گھناؤنا فعل ہے جہاں آسمان و زمین بھی اشکبار ہوجاتے ہیں۔کیونکہ خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر بنایا ہے اس لئے بنی آدم کے ساتھ اس کی محبت اور شفقت کبھی جدا نہیں ہوتی ۔ہماری لاکھ کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود بھی وہ ہمیں اپنی شفقت کی چادر میں لپیٹ کر پناہ دیتا ہے ۔ ہمارے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچاتا ہے۔لیکن یہ انسانیت اس وقت حیوانیت میں تبدیل ہو جاتی ہے جب کسی بے گناہ کا اپنے مفاد کی خاطر خون بہایا جاتا ہے ۔ خون بہانا انسانی قدروں کا سب سے سنگین جرم و گناہ ہے جس کی معافی ناقابل تلافی ہے یعنی خون کا بدلہ خون ہے۔ جسےخدا اپنے غیور نام کی خاطر ضرور لیتا ہے ۔ہم قانون سے تو بچ سکتے ہیں لیکن خدا کی عدالت سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔کیونکہ وہ رب العالمین ہے۔

عصر ِحاضر کی بڑھتی ہوئی حرص و ہوس ہمیں اس بات سے باخبر کر رہی ہے کہ انسان نے حیوانی درندے جیسا روپ دھار  لیا ہے۔اس کا   دل پتھر جیسا سخت ہو گیا ہے ۔اس لیے اسے وار کرتے ہوئے کوئی درد محسوس نہیں ہوتا ۔وہ اپنے مفاد کی خاطر بڑی آسانی سے دوسروں کو خون بہا دیتا ہے۔وہ شاید اس بات کو بھول جاتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔میرے تعلقات و روابط کا حدوداربعہ بہت وسیع ہے ۔قانونی طور پر میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں ۔میں دولت سے ہر کسی کو خرید سکتا ہوں ۔شاید یہ باتیں دنیاوی طور پر تو سچ ثابت ہوجائیں لیکن خدا پورا پورا انصاف کرتا ہے۔ وہ کسی کی طرف داری نہیں کرتا بلکہ وہ    ہر  کسی سے اس کے اعمال کے مطابق سلوک کرتا ہے۔
وہ ہر یتیم اور مسکین اور بے سہارا کا خدا ہے جو رحم کرنے میں دھیما اور شفقت میں بڑھ کر غنی ہے۔اس جیسا منصف کوئی نہیں ہے ۔جہاں دنیا کی عدالتیں انصاف کا دروازہ نہ کھول سکیں وہاں وہ خود ہاتھ بڑھا کر بچا بھی لیتا ہے اور بدلہ بھی لے لیتا ہے۔ آج دنیا میں بڑھتی ہوئی حرص و ہوس نے انسان کو اس حد تک گرا دیا ہے کہ وہ کسی کا خون بہانے میں دریغ نہیں کرتا ،اس کے چھپے مقاصد اسے ظلم و ستم کی انتہا تک لے جاتے ہیں ۔اس کا ذہن خدا کے خوف سے خالی اور دل خدا کی محبت سے اچاٹ ہو جاتا ہے ۔وہ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے اپنی فطرت کو ایک ایسے زاویے پر لا کر کھڑا کر لیتا ہے ۔جہاں خود غرضی کے  تِیر دوسروں کو آسانی سے زخمی کر دیتے ہیں ۔وہ روحانی طور پر اندھا ہو جاتا ہے ۔اس کی فطرت بگاڑ کے ناسوروں سے بھر جاتی ہے۔

وہ مذہبی ،معاشرتی، اخلاقی ، پابندیوں سے آزاد ہوکر گناہ کے ساتھ سمجھوتا کر لیتا ہے۔جس کا بھیانک انجام روحانی اور جسمانی موت ہے۔ شاید وہ اس بات سے نا واقف ہوتا ہے کہ ایک نا ایک دن اسے موت کی رسیاں جکڑ لیں  گی۔ اس کی دوڑ ختم ہو جائے گی ۔وہ مجبور اور بے بس ہو جائے گا۔ اس کی عقل جواب دے جائے گی ۔اس کی سوچ مفلوج ہو جائے گی۔وہ راستہ بھول جائے گا ۔اس کا دل دھڑکنا بند ہوجائے گا ۔جس کی بنیادی وجہ شاید وہ اس مثل کو بھول گیا تھا جو اس کی زندگی کے نصاب میں شامل تھی ۔” جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ” اگر انسانی نفسیات کا مشاہداتی خوردبین سے جائزہ لیا جائے اور تجربہ کو بطور گواہ شامل کر لیا جائے تو یہ بات حق وصداقت کا خود ہی پرچار کر دے گی کہ انسان کے دل و دماغ پر تہہ در تہہ گناہ کی پرتیں جمی ہوتی ہیں۔جن سے اندازہ لگا کر اس بات کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔کہ جب تک انسان بدن کے وطن میں ہے بگاڑ اور گناہ اس کی فطرت سے ختم نہیں ہو سکتا، جب تک وہ حقیقی توبہ نہ کرے ۔میری مراد مرچوں والی توبہ نہیں بلکہ گناہ والی توبہ ہے۔جس کا گناہوں سے معافی کے لئے ورد کیا جاتا ہے اور خدا کے سامنے اس بات کا برملا اقرارکیا جاتا ہے کہ  میں آئندہ گناہ سے سمجھوتہ نہیں کروں گا ۔

اگر ہم خون بہانے کی بنیادی وجوہات پر غور وخوض کریں تو ہمیں بڑی آسانی سے ان باتوں کا خلاصہ مل جاتا ہے جو قتل و غارت کو مدعو کرتی ہیں۔مثلاً کسی کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے اس کو موت کے گھاٹ اتارنا ، حسن و شباب کی خاطر قتل کر دینا ، نسل در نسل دشمنی کے باعث ، حسد کینہ اور بغض کی خاطر ، اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے ، اختیار کا ناجائز استعمال ، بیوہ کی جائیداد ہڑپ کرنے کے لئے ، یہ وہ سب بنیادی اور نفسیاتی حربے ہیں جنہیں استعمال کرکے قتل و غارت کی ابتدا ء ہوتی ہے ۔انسان اپنی ذات میں کتنا کم بخت اور لالچی ہے شاید وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ وہ تو اس دنیا میں مسافر اور پردیسی ہے۔کیونکہ ہم ماں کے پیٹ سے ننگے پیدا ہوتے ہیں اور ننگے ہی قبر میں واپس چلے  جاتے  ہیں  ۔نہ ہم دنیا میں اپنے ساتھ کچھ لاتے ہیں اور نہ  اس دنیا سے اپنے ساتھ کچھ لے کر جا سکتے ہیں۔مذکورہ باتوں اور دلائل کو سمجھنے کے باوجود بھی شاید ہماری سوچ مفلوج ہے جو ہمیں مثبت سوچ کی غذا مہیا نہیں کرتی ۔کیونکہ منفی ہتھکنڈوں نے ہمیں اس قدر یرغمال بنا کر رکھا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ہم اپنی خواہشات کی تکمیل اور دنیاوی حرص و ہوس کی خاطر اپنے تمام رشتے ناطے قبر میں دفن کر دیتے ہیں ۔شاید اب ہم خود زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو موت کے  منہ  میں دیکھنا چاہتے ہیں۔دنیا روز اوّل سے قائم ہے اور جب تک دنیا کا شیرازہ بکھر نہیں جاتا یہ اپنی اصلی حالت میں برقرار رہے گی ۔لیکن انسان مسافر اور پردیسی ہے جو نسل در نسل اپنے سفر کو طے کر رہا ہے ۔وہ اپنی عقل و بصیرت کے باوجود بھی خدا کی محبت اور شفقت کا محتاج رہتا ہے ۔اس کے سارے منصوبے اس کی مرضی کے بغیر پاتال میں گر جاتے ہیں۔جہان ناکامی اس کا منہ چڑاتی اور پچھتاوے کے لقمے کھلاتی ہے ۔ہم زمین کو کیوں خون سے سیراب کر رہے ہیں ۔یہ تو محبت وا الفت کی پیاسی ہے ۔قدروں کی خواہش مند ہے ۔میل جول کی متلاشی ہے ۔انسانیت کی دوست ہے ۔خوشی کی بھاپ دیتی ہے۔بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیں  چند لمحے اس بات پر غور وخوض کریں کہ انسانیت کا قتل دھرتی ماں کے لیے سہنا کتنا مشکل ہے۔ہمیں تو ایک کانٹے کی چبھن تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔آئیں آج اس بات کو اپنی نفسیات کے ساتھ نتھی کریں اور سوچ کے سمندر میں ڈبکی لگا کر زندگی کے موتی کو تلاش کریں کیونکہ یہ ایک ہی دفعہ ملتا ہے اگر کھو جائے تو دوبارہ واپس نہیں آتا ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply