• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈاکٹر عبدالقدیر خان : پاکستان کے ہیرو کی بے قدری۔۔ منظور قاضی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان : پاکستان کے ہیرو کی بے قدری۔۔ منظور قاضی

پاکستانی  جوہری بم کے  خالق اور پاکستان کے ہیرو عبدالقدیر خان ولد عبدالغفور خان ، یکم اپریل 1936 میں بھوپال میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی اور اسکے بعد پاکستان ہجرت کرکے کراچی یونیورسٹی سے اعلی ٰ تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ  تعلیم برلن ، ہالینڈ اور بلجیم کی یونیورسٹیوں سے حاصل کرکے پاکستان کے اس وقت کے صدر بھٹو مرحوم کے کہنے پر پاکستان واپس آکر جوہری توانائی اور جوہری بم کا پروگرام شروع کیا اور چند سال کے قلیل عرصے میں ( جنرل ضیا الحق اور چودھری غلام اسحاق خاں کی سرپرستی میں ) جوہری بم تیار بھی کرلیا۔

اس کا ثبوت 28 اور 30 مئی 1998 کو پاکستان نے ( اور دنیا بھرنے ) جوہری بموں کے چھ دھماکوں کی شکل میں دیکھ لیا۔

اس عظیم سائینسداں کو پاکستان نے ہلال امتیاز سے 14 اگست 1989 کو اور پھر نشان ِ امتیاز سے 14 اگست 1996 اور 23 مارچ 1999 کو نوازا ۔

افسوس کہ 4 فروری 2004 کو ان  کے ساتھ پاکستان کے ( اس وقت کے صدر ) پرویز مشرف نے انتہائی سفاکانہ سلوک صرف اور صرف امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے کیا اور ان  سے ایک ایسا معافی نامہ پڑھوایا جس کے  مصنف وہ خود نہیں بلکہ حکومت کا ہی کوئی کارندہ تھا ۔

صدر مشرف نے نہ صرف یہ مذموم حرکت کی بلکہ انکو کئی سال تک نظر بند رکھا ۔ یہ نظر بندی بالآخر6 فر وری 2009 کو ختم ہوئی۔

اس طرح اس عظیم الشان سائنسداں کی خدمات سے پاکستان کئی سال تک محروم ہو گیا ۔ اس کا نقصان پاکستان کو جس قدر ہوا اسکا اندازہ لگا ممکن نہیں۔  .ان کی زندگی میں  ان  کی بے قدری، پاکستان کی بدقسمتی سے کم نہیں ۔

کاش کہ پاکستان کے ارباب اختیار اس عظیم   سائنسدان کی قدر کرتے   ۔جو کہ ان کی زندگی میں تو ممکن نہ ہوسکا ۔

اللہ تعالی سے دعاہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں ،آمین

میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ پاکستان نے اس عظیم سائنسداں کی بے قدری کی اور جب وہ مرگئے تو انکی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں   اور انکے کارناموں کے قصے سنائے جا رہے ہیں ، اس لیے کہ پاکستان کی روایت یہی ہے کہ زندگی میں تو  اپنے ہیروز کی بے قدری کی جائے اور مرنے کے بعد  قبر پر پھول نچھاور کیے  جائیں  .
بہر کیف:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان زندہ باد
پاکستان زندہ باد

بشکریہ عالمی اخبار

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر ڈاکٹر صاحب کے ایک پرانے انٹر ویو کی مدد سے لکھی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply