منیرہ مرزا کا استعفٰی بورس جانسن کے لیے بڑا دھچکا

(نامہ نگار: فرزانہ افضل)برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک مشیر منیرہ مرزا جسے “بورس کا دماغ” بھی کہا جاتا ہے، نے اپنے استعفٰی کی وجہ بیان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ،” وزیراعظم کا لیبر پارٹی کے لیڈر سر کیئر سٹارمر کے بارے میں دیا گیا بیان گھٹیا اور مضحکہ خیز حملہ ہے۔” منیرہ مرزا جو گزشتہ 14 سال سے بورس جانسن کے ہمراہ ہیں۔ اور ان کے لندن میئر، بریگزٹ مہم، سیکریٹری خارجہ اور وزیراعظم کے طور پر ان کے ہر دور کے مصائب کے دوران اپنے باس کے لیے صلاح و مشورہ کا ذریعہ رہی ہیں بلکہ ان کو چیلنج کرنے کا حوصلہ اور قابلیت کی بھی حامل تھیں۔

محترمہ مرزا جن کو کبھی کبھار “بورس کا دماغ” بھی کہا جاتا ہے شاید تا زندگی کنزرویٹو پارٹی سے تعلق نہ رکھیں ، وہ ایک دور میں کمیونسٹ کارکن بھی رہ چکی ہیں۔ 43 سالہ منیرہ مرزا جو اولڈہم کے ایک فیکٹری ورکر کی بیٹی ہیں، جن کی پرورش اولڈہم ٹاؤن میں ہوئی اور جن کا پس منظر ایٹون جیسے اعلیٰ  ادارے سے تعلیم یافتہ بورس جانسن سے یکسر مختلف ہے۔ زیادہ تر مشیروں کی طرح وہ عوام اور میڈیا کی نظروں میں نہیں رہتیں۔ لیکن 2018 میں انہوں نے بورس جانسن کا دفاع کرتے ہوئے ایک اداریہ لکھا ، جب انھوں نے مسلمان برقع پوش خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں لیٹر بکس سے تشبیہ دی تھی۔ منیرہ مرزا نے اس کے جواب میں کنزرویٹیو پارٹی کی ویب سائٹ پر لکھا ،” بورس جانسن اسلام اور اسلامی ثقافتوں کے بارے میں ان سیاستدانوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں جو ان پر حملہ کرنے کے لئے تیار باش ہیں۔”

مگر گزشتہ ہفتے ہاؤس آف کامنز میں جانسن نے سر کیئر سٹارمر جو پبلک پراسیکیوشن کے سابق ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں، پر حملہ کیا کہ وہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرم “سرجمی سیول” پر مقدمہ چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ مگر اس بار یہ معاملہ قابل دفاع نہ تھا۔ منیرہ مرزا نے سپیکٹیٹر میگزین میں شائع ہونے والے اپنے استعفٰی کے خط میں لکھا ،” یہ کوئی معمول کی سیاسی چال یا حربہ نہیں تھا یہ بچوں کے جنسی استحصال کے ایک خوفناک مقدمے کا نامناسب اور متعصبانہ حوالہ تھا۔”

محترمہ مرزا اس معاملے پر شدید مایوسی کا شکار ہونے کے باوجود بھی بورس جانسن کی صلاحیتوں کی معترف دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا ،” آپ اس سے بہتر آدمی ہیں ، جسے آپ کے مخالفین کبھی سمجھ نہ پائیں گے، مگر یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ آپ نے اپوزیشن لیڈر کے خلاف گھناؤنا الزام لگا کر اپنے آپ کو نیچا کیا ہے۔” منیرہ مرزا جو بورس جانسن کے ان سینئر عہدیداروں سے بھی زیادہ ان کے قریب تھیں جنہوں نے 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران ڈاؤننگ سٹریٹ میں منعقد ہونے والی پارٹیوں پر جاری ہنگامہ آرائی کے دوران استعفٰی دے دیا ہے۔ ایک سیاستدان جو اپنی چلبلی اور یارباش شخصیت کے باوجود بھی اکیلا ہی سمجھا جاتا ہے، کے لیے  منیرہ مرزا کی رخصتی ایک بڑا نقصان ہے منیرہ مرزا جو ڈاؤننگ اسٹریٹ کی مہر بند دنیا سے اٹھنے والی ایک آزاد آواز تھی۔

پاکستان سے آۓ ہوئے والدین کے ہاں 1978 میں جنم لینے والی منیرہ مرزا آکسفورڈ یونیورسٹی میں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ایک جامعہ اسکول کی طالبہ تھیں، جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی مگر اسی دوران بائیں بازو کی اس جماعت میں آزاد سوچ کی کمی کے بارے میں جان کر مایوس ہوئیں اور ایک مکمل نظریاتی تبدیلی سے گزریں۔ یونیورسٹی آف کینٹ میں سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد پالیسی ایکسچینج کے لیے کام کرنا شروع کر دیا، جو کنزرویٹو پارٹی کے مائیکل گوو، فرانسس ماڈ اور نک بولز کا قائم کردہ تھنک ٹینک تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

منیرہ مرزا نے اپنے سیاسی عروج پر ڈاؤننگ اسٹریٹ چھوڑتے ہوئے، وزیراعظم کے سر سٹارمر پر کسے گئے گھٹیا فقرے پر غصے کی بجائے دکھ اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ،” میں مانتی ہوں کہ ہماری سیاسی ثقافت میں لوگ غلطی کو معاف نہیں کرتے،” انہوں نے اپنے استعفٰی میں بورس جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا ،” قطع نظر، ایسا کرنا صحیح کام ہے، مگر آپ کے لیے زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے ، مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے لیے بہت دیر ہو چکی ہے،”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply