سینیٹ ، مشاہد اور پیپلز پارٹی ۔۔محمد اسد شاہ

سینیٹ کو ایوان بالا کہا جاتا اور بہت معتبر و مقدس گردانا جاتا تھا ۔ لیکن اب سروے کروا لیجیے ، 22 کروڑ میں سے شاید ہی کوئی باشعور آدمی ایسا ملے جو سینیٹ کو اپنے حقوق کا محافظ مانتا ہو ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اب یہاں ووٹ ضمیر نہیں ، بلکہ شاید کسی خفیہ اشارے پر دیا جاتا ہے ۔ بھاری اکثریت اقلیت بن جاتی ہے ، چھوٹی سی اقلیت جیت جاتی ہے ، ووٹنگ ٹیبل پر کیمرہ لگا دیا جائے تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔

گزشتہ 22 سالوں میں بتدریج اس ادارے کو جس طرح بے ضرر ، بے روح اور نامعتبر بنایا گیا ہے ، اس پر مستقبل میں پوری قوم کو پچھتانا پڑے گا ۔ اس کام کی ابتداء خصوصاً 1999 میں ہوئی جب جنرل پرویز مشرف نے سینیٹ کو کام کرنے سے زبردستی روک دیا اور سینیٹرز نے اس “حکم” کو بہت احترام اور خاموشی کے ساتھ تسلیم کر لیا ۔ ماضی میں 18 اپریل 1993 کو جب سابق صدر غلام اسحٰق نے میاں محمد نواز شریف کی منتخب حکومت کو جبراً برخواست کرنے اور قومی اسمبلی توڑنے کا حکم دیا تو سپیکر ، مسلم لیگ نواز کے گوہر ایوب خان نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ۔ سرکاری وکلاء صدر کے حکم کا دفاع کرنے ، اور کوئی جواز پیش کرنے میں ناکام رہے تو سپریم کورٹ نے حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کر دیا ۔ یعنی تب قومی اسمبلی نے مقتدر قوتوں کے خلاف مزاحمت کی اور اپنا وجود آئینی طریقے سے تسلیم کروایا ۔ لیکن افسوس کہ 1999 میں سینیٹ کے ارکان یا چیئرمین کو اتنی سی بھی توفیق نصیب نہ ہوئی ۔ آئین کہتا ہے کہ سینیٹ کو کسی بھی حالت میں معطل یا منسوخ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس آئینی طاقت کے باوجود سینیٹ نے جنرل پرویز کے غیر آئینی حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کر لیا ۔ جب کہ دوسری طرف منتخب صدر جناب محمد رفیق تارڑ نے پیرانہ سالی کے باوجود مزاحمت کی ، استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور اپنی معطلی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ۔ حتیٰ کہ عدالت کو ان کے حق میں فیصلہ دینا پڑا ۔ قوم کی بدقسمتی کہ اس فیصلے پر آج تک من و عن عمل نہیں کیا گیا ۔

ایک وقت تھا جب سینیٹ کے لیے اعلیٰ دماغوں اور صلاحیتوں والے امیدوار سامنے آتے تھے ، اور سیاسی جماعتیں بھی ٹکٹ دیتے وقت سوچ بچار کرتی تھیں ۔ شائستہ مزاج ، اور آئینی بالادستی کے علم بردار لوگ سامنے آیا کرتے تھے ۔ لیکن اب حالات بہت مختلف ہیں ۔

2017 میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے پارلیمنٹ کے بھاری اکثریت سے منظور کردہ ایک قانون کو ختم کر کے میاں محمد نواز شریف کو اپنی ہی پارٹی کے منتخب صدر کے طور پر کام کرنے سے روک دیا ۔ پھر اسی فیصلے کو جواز بناتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کو “آزاد” امیدوار بننے کا حکم دیا گیا ۔ واضح نظر آ رہا تھا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت مسلم لیگ نواز سینیٹ میں کم زور ترین ہو جائے گی ، اور اس قابل ہی نہ رہے گی کہ اپنی رائے منوا سکے ۔ مسلم لیگ نواز نے اپیل کی کہ اسے ٹکٹس دوبارہ جاری کرنے کی اجازت دی جائے اور کاغذات نام زدگی جمع کروانے کی تاریخ بھی دو چار دن بڑھا دی جائے ۔ لیکن جسٹس ثاقب نثار نے یہ اپیل بھی مسترد کر دی ۔ اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن سے یہ واضح تھا ان انتخابات میں سب سے زیادہ ارکان مسلم لیگ نواز کے حمایت یافتہ ہی جیت سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا ۔ لیکن جسٹس ثاقب کے فیصلے کی رو سے مسلم لیگ نواز کے تمام نو منتخب سینیٹرز “آزاد” حیثیت میں منتخب ہوئے ۔ ان ارکان کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے ووٹوں سے جیتنے کے بعد جس مرضی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں ۔ سیاسی بے وفائیوں ، طوطا چشمی اور ضمیر فروشی سے بھرپور ہماری سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے امکان تھا کہ اکثر ارکان بعض طاقت ور حلقوں کی خواہش پر خصوصاً عمران کی تحریک انصاف یا زرداری کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیں ۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ ان تمام نے اپنی جماعت یعنی مسلم لیگ نواز میں ہی شمولیت کا تحریری اعلان کیا ۔

یوں سینیٹ میں مسلم لیگ نواز سب سے بڑی جماعت کے طور پر برقرار رہی ، بل کہ اس کی طاقت مزید بڑھ گئی ۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور بعض دیگر جماعتیں رہیں ۔ چیئرمین کے انتخاب کا وقت آیا تو ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ “عمران زرداری خفیہ گٹھ جوڑ” بے نقاب ہو گیا ، جو دراصل 2011 سے قائم تھا اور اب تک جاری ہے ۔ اس موقع پر میڈیا کے سامنے عمران خان اور آصف زرداری نے قلبی محبت سے لبریز ایک یادگار مصافحہ کے ساتھ مشترکہ ایجنڈے کا اعلان کیا ۔ دونو سیاسی قائدین نے چیئرمین کے لیے صادق سنجرانی نامی ایک آزاد سینیٹر کی نام زدگی کا اعلان کیا ۔

سنجرانی صرف ذاتی تعلقات اور بعض “سیاسی روابط” کی بنیاد پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا ۔ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ ملک کے اتنے اہم منصب پر ان صاحب کی نام زدگی کا فیصلہ کس نے کیا اور اس کی حتمی منظوری کے لیے “عمران زرداری اتحاد” کا اجلاس کب اور کہاں منعقد ہوا ۔ ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو نام زد کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کو کرپٹ ترین جماعت کہنے والے عمران خان نے اپنی تحریکِ انصاف کے سینیٹرز کو ہدایت کی کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں ۔ چناں چہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی جیسی بھاری بھر کم جماعتوں اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن ، ایم کیو ایم ، قاف لیگ ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دسیوں دیگر جماعتوں کی موجودگی کے باوجود ایک آزاد سینیٹر ایوان بالا کا نگران بن گیا ۔

سینیٹ میں اسی قسم کی جادوگری کا ایک اور مظاہرہ یکم اگست 2019 کو ہوا جب تحریک انصاف کی اتحادی پیپلز پارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ۔ سینیٹ کی غالب ترین اور فیصلہ کن اکثریت اپوزیشن میں تھی ۔ حکومتی بنچوں پر بیٹھے لوگ ایک معمولی سی اقلیت رہ گئے ۔ لیکن جادو کی چھڑی ایسی گھومی کہ ایوان بالا کا رعب ، دبدبہ اور وقار کہیں غائب ہو گیا اور تحریک عدم اعتماد “تکنیکی طور پر” ناکام قرار پائی ۔ اس موقع پر مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے بعض ارکان نے مشکوک کردار ادا کیا ۔ ان میں مسلم لیگ نواز کی سینیٹر کلثوم پروین بھی مبینہ طور پر شامل تھیں ، جن کا بعد میں کرونا سے انتقال ہوا ۔

مارچ 2021 میں سینیٹ کے نصف نئے ارکان کا انتخاب ہوا تو حکمران تحریک انصاف کے چند مزید لوگ سینیٹ کا حصہ بن گئے ۔ اسلام آباد کی نشست کے لیے سابق وزیراعظم یوسف رضا شاہ مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن سمیت اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے امیدوار تھے ۔ اسمبلیوں میں مسلم لیگ نواز کے ووٹ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ ہیں اور اس کے بغیر اسلام آباد کی نشست کوئی پارٹی جیت نہیں سکتی تھی ۔ چنانچہ مسلم لیگ نواز کی فیصلہ کن حمایت سے پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا شاہ سینٹر منتخب ہو گئے اور حکمران تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ شکست کھا گئے ۔ یہ حکومت کے لیے اتنی بڑی ہزیمت تھی کہ عمران خان کو اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑ گیا ۔

12 مارچ 2021 کو نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوا ۔ ایک بار پھر وہی آزاد سینیٹر صادق سنجرانی چیئرمین منتخب ہو گئے ۔ ایک عجیب واقعہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ نواز میں شامل سینیٹر مرزا محمد آفریدی کو ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار نام زد کر دیا ۔ آئینی طور ایسا کرنا غلط تھا اور الیکشن کمیشن آفریدی صاحب کو سینیٹ کی رکنیت سے بھی فارغ کر سکتا تھا ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ، بلکہ جادو کی چھڑی گھومتی ہوئی سنجرانی کو چیئرمین اور آفریدی کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کروا گئی ۔

پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر نامعلوم جادو گروں کی خواہش کے عین مطابق اپوزیشن اتحاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر یہ طے ہوا تھا کہ اسلام آباد کی نشست کے لیے پی ڈی ایم کے تمام ارکان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا شاہ گیلانی کو جتوائیں گے ، چیئرمین کے لیے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی جائے گی ۔ جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے مسلم لیگ نواز کے نام زد امیدوار کی حمایت کی جائے گی ۔ لیکن ایک رات اچانک چیئرمین صادق سنجرانی نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یوسف رضا شاہ کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا ۔

جواز یہ تھا کہ چیئرمین کے پاس پیپلز پارٹی کی ایک درخواست پہنچی ، جس میں یوسف رضا شاہ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی ۔ درخواست پر اے این پی، سرکاری جماعت “باپ” اور حکومت کی خاموش اتحادی جماعت اسلامی کے ارکان کے دستخط تھے ۔ یہ بات ناقابلِ فہم تھی کہ سرکاری بنچوں پر بیٹھے لوگ کیسے کسی کو اپوزیشن لیڈر نام زد کر سکتے تھے لیکن جادو ایسا سر چڑھ کے بولا کہ چیئرمین نے وہ درخواست منظور کر لی ۔ “عمران زرداری گٹھ جوڑ” کی یہ دوسری بڑی رونمائی تھی ۔ پیپلز پارٹی کی اس واردات سے حکومت کو ناکوں چنے چبوانے والے اتحاد پی ڈی ایم میں بھی دراڑ پڑ گئی ۔ اتحاد نے پیپلز پارٹی اور اے این پی سے معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ پوچھنے کے لئے خط لکھا تو بلاول زرداری نے اپنی پارٹی کے ایک اجلاس میں میڈیا کے سامنے اس خط کو پھاڑ کر پھینکنے کی ایسی اداکاری کی ، کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑنے والی کاروائی بھی شرما گئی ۔ حکومتی پارٹیوں کی کھلم کھلا حمایت کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کو بیک وقت پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر تباہ کرنے کی اس واردات کا کوئی جواز دینے کی بجائے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ۔ حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کی سابقہ سیاسی جماعت اے این پی نے بھی پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ یوں 2017 سے اب تک پیپلز پارٹی اور نامعلوم جادوگروں کا اتحاد سینیٹ میں مسلسل قائم نظر آتا ہے ۔

گزشتہ ماہ سینیٹ میں تحریک انصاف نے سٹیٹ بینک کی خودمختاری اور منی بجٹ کا بل پیش کیا ۔ عین اس موقع پر اپوزیشن کے تقریباً 11 ارکان غائب تھے ۔ جب کہ ایک حکومتی خاتون سینیٹر بیماری کی حالت میں بازو میں لگی ڈرپ سمیت موجود تھیں ۔ غائب ہونے والوں میں مشہور سینیٹر مشاہد حسین بھی شامل تھے جو مسلم لیگ نواز کی حمایت سے جیتنے کے بعد مسلم لیگ نواز کا نام تک لینا شاید حرام سمجھتے ہیں ، اور کبھی کسی تقریب یا ٹاک شو میں خود کو مسلم لیگ نواز کا سینیٹر نہیں کہلواتے ۔ تمام اہم حکومتی تقریبات میں صرف “معروف سینیٹر” کی حیثیت سے سٹیج پر موجود ہوتے اور فلسفیانہ خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی اور باپ کی سفارش پر اپوزیشن لیڈر بننے والے یوسف رضا شاہ بھی عین ووٹنگ کے وقت کسی دوست کے ہاں تعزیت کے لیے چلے گئے ۔ ان کے منصب کا تقاضا تھا کہ تعزیت بعد میں ہو سکتی تھی ، لیکن ووٹنگ تو اسی دن ہونا تھی ۔ اپوزیشن کے جو دیگر ارکان غائب تھے ، ان کو موجودگی پر قائل کرنا بھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر یوسف رضا گیلانی کی اخلاقی و منصبی ذمہ داری تھی ۔ لیکن وہ خود غائب تھے اور حکومتی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کر لیا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سینیٹ میں عوامی نمائندگی کی کم زوری اور اخلاقی پستی کا اظہار مسلسل جاری ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نواز سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ ملک بھر میں اپنے لاکھوں بے لوث کارکنوں کو نظر انداز کر کے 2017 میں کلثوم پروین مرحومہ اور مشاہد حسین کو کس بنیاد پر ٹکٹ دیئے گئے ۔ جب کہ ان دونو کا سیاسی قبلہ بار بار تبدیل ہونا ریکارڈ پر تھا ۔
ایوان بالا کے اخلاقی زوال کے مسلسل سفر ، اور بتدریج بے توقیری کے ہر مرحلے پر پیپلز پارٹی ، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کا کردار بہت معنی خیز ہے ۔ معلوم نہیں کہ ان کے ہر قدم سے نامعلوم جادوگروں کو ہی فائدہ کیوں پہنچتا ہے ۔ خفیہ ملاقاتوں میں تو جادوگر پیپلز پارٹی کو شاباش دیتے ہی ہوں گے ، لیکن تحریک انصاف کے وزراء فواد چودھری اور شاہ محمود قریشی تو اعلانیہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ “پیپلز پارٹی کا شکریہ!”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply