سیاست اور نوجوان۔۔ معاویہ یاسین نفیس

سیاست وہ راستہ ہے جس پر چل کر ملک و ملت کی بڑی خدمت کی جاسکتی ہے۔طاقت کے سرچشمے حکومت کے پاس ہوتے ہیں، تعلیمی ادارے حکومت چلاتی ہے، ذرائع ابلاغ پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے، ترقیاتی کام حکومت کرواتی ہے، عدالتی نظام پر حکومت کی گرفت ہوتی ہے ، داخلی سلامتی کا محاذ ہو یا خارجہ پالیسی کے امور، سب حکومت سنبھالتی ہے، نظم و نسق وہی چلاتی ہے ۔قصہ مختصر کہ زندگی کے تمام گوشوں میں اس کا عمل دخل ہے۔

اس تناظر میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیاست میں حصہ لینے سے بے اعتنائی خودکشی کے مترادف ہے نوجوانوں کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنا ، اس میدان میں انہیں سرگرم کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے آمادہ کرنا بہت ضروری ہے۔

آپ کا گھر کیسا اور کتنا ہو، کیا کھائیں ، کیا پہنیں، بچوں کی تعلیم وتربیت کیسی ہو ، نصاب کیسا ہو، نسلوں کی  تربیت  کن خطوط پر ہو ، گویا زندگی کے ہرشعبہ پر سیاسی اثرات واضح ہیں، یہ تمام فیصلے سیاست کے ذریعے طے کئے جارہے ہیں۔

ان حالات میں باشعور قوم کا کوئی فرد سیاست کو نہ تو نظر انداز کرسکتاہے اور نہ ہی دور رہ سکتاہے۔نوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ووٹ کی اہمیت کو جانتا تک نہیں ہے اور نہ  ہی اسے بتایا جاتا ہے۔

کسی دانا کا قول ہے کہ
“اُس قوم کی ترقی دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی جس کے نوجوان ذمہ دار اور محنتی ہوں لیکن اگر اُس قوم کے نوجوان کاہل اور لاپروا ہوجائیں تو بربادی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔‘‘

نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں جو اپنی قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیشتر قوموں کی بیداری اور ان کے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر انقلاب میں نوجوان طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ اور انقلاب لانے کی امنگ ہوتی ہے۔یہ مضبوط عزم اور بلند حوصلہ کےمالک ہوتے ہیں۔

ان کی رگوں میں گرم خون اور سمندر جیسی طغیانی ہوتی ہے ان کی قابلیت و ذہنی صلاحیتیں انھیں حالات کا رخ موڑ دینے، مشکلات جھیلنے کیلئے اُبھارتی رہتی ہیں۔آج کا نوجوان یا تو ازخود سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے یا پھر اس کے ذہن میں ایسی چیزیں نصب کردی جاتی ہیں جو روایتی سیاستدانوں کے لئے راہ کی ہمواری کا باعث ہوتی ہیں،۔

روایتی سیاستدان کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ نئی بیدار ہونے والی آوازوں کو یا تو دفنایا جائے یا دبایا جائے کیونکہ نوجوان قدامت پسندی کے خلاف سرکشی کرتاہے وہ سسٹم کو بہتر کرنے کا خیال رکھتا ہے جوکہ ایک روایتی سیاستدان کے لئے گلے کے پھندے کے مترادف ہوتا ہے۔اس وقت کے موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو انتہائی کم نوجوان سیاست اور ریاستی معاملات کے بارے میں سوچتے ہیں
کیونکہ آج کے دور میں سیاست کو ایک عبادت نہیں بلکہ ایک گالی تصور کیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ یہ مقدس شعبہ غلط اور نااہل افراد کی جاگیر بن چکا ہے۔سیاست میں زیادہ تر وہی نوجوان ہیں جن کا سیاسی خاندان ہے یعنی کہ شروع سے ہی سیاست میں ان کا عمل دخل ہے جس سے و ہی نااہل ولد نااہل کا  سلسلہ جاری رہتا ہے۔

بدقسمتی سے آج کے معاشرے  میں سیاسی تنقید کو ذاتی دشمنی میں بدل دیاجاتاہے جوکہ اجتماعی طور پر ہمارے کمزور خیالات کا عکاس ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمارے معاشرہ کے ایک بڑے طبقہ نے اپنی نوجوان اولاد پر یا تو سیاسی طور پر متحرک ہونے پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں یا پھر سیاست سے مکمل دوری اختیار کرنے پر مجبور کیا ہواہے جسکی وجہ سے قوم کے مستقبل کے فیصلے باشعور افراد کے بجائے لکیر کے فقیر افراد کے طبقے  تک محدود ہو کر  رہ گئے ہیں جوکہ کسی طور پر ملک و ملت کے لئے باعث خوشگوار نہیں ہے
ایک حساس و باشعور قوم ہونے کے ناطے قوم کے نوجوانوں کو چاہیے کہ سیاست جیسے اہم میدان کو استعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کارخ بدلنےکی کوشش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ بھلے عملی سیاست میں سرگرم نہ ہوں مگر سیاست سے بالکل لا تعلق بھی نہ رہیں بلکہ انتخابات میں حق رائے دہی کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور سوشل میڈیا کی وساطت سے اور براہ راست سیاسی امور میں اپنے خیالات دوسروں تک پہنچائیں۔انہیں صحیح، غلط سے متعارف کرائیں اور عوام میں بیداری لاکر انہیں ذمہ دار شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وطن عزیز میں ایک نئی جہت متعین ہو،اور  ارتقائی سفر دوام پکڑے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply