نصیر زندہ، رباعی زندہ۔۔۔ رحمان حفیظ

صورت گری ارتباط سے ہوتی ہے
ہر بودنی اختلاط سے ہوتی ہے
کھلتا ہے نشاطِ غم سے ایجاد کا در
تخلیق غمِ نشاط سے ہوتی ہے
رباعی کے بارے میں عموماً اوّلیں خبر یہی نشرکی جاتی ہے کہ رباعی لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ اسی سلسلے میں اگر دوسری کوئی خبر ہو تو وہ یہ ہوتی ہے کہ قارئین رباعیات پڑھنا پسندنہیں کرتے۔ چنانچہ عمومی طور پر شعرا و شاعرات نے رباعی سے فاصلہ رکھنے میں ہی سہولت محسوس کی۔ جو لوگ رباعی کی طرف آئے وہ رباعی گوئی کو ایک چیلنج سمجھ کر آئے اور ان میں سے اکثریت عروض پرست تھی۔ وہ افاعیل و ارکان کو گن گن کر اور تول تول کر اور چار چار مصرعوں کی پیکنگ کر کرا کے رباعی گو بنتے گئے ۔ ایسی خشک اور بے رس تخلیقات نے رباعی کو شہرت کو بہت داغدار کیا۔
یہ اتنی اجنبی قرار پا جانے والی صنف نہ تھی۔ اگر صرف اس کے ناموں کی تعداد ہی درجن کے قریب ہے تو ماضی میں اس کی مقبولیت کا عالم کیا ہوگا !!
تاریخ بتاتی ہے کہ خواجہ بندہ نواز، قلی قطب شاہ اور ملا وجہی سے لے کرنظیر، انیس و میر و دبیر تک اور ان سے لے کر داغ اور اس کے بعد کے نو کلاسیکی شعرا تک شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے رباعی نہ کہی ہو
حتّی کہ اختر انصاری نے کسی دور میں کہا تھا
ہر روز اگر ایک رباعی نہ کہوں
ہوتا نہیں حق جیسے ادا جینے کا
اور زیادہ نہیں دو تین عشرے پہلے صادقین نے بھی کہا تھا
اس پر نہیں موقوف رباعی تجھ کو
ہر روز ہی تختی پہ لکھا تھا میں نے
گویا اچھے لکھاریوں کے لئے رباعی کہنا ایک معمول رہا ہے۔ آج وہی روزمرہ صنف کس مپرسی کا شکار کیوں ہو گئی !!
خیر ایسا بھی نہیں، کسمپرسی تو نہیں کہنا چاہیئے لیکن نظر اندازی کا شکار ضرور ہے۔ زیادہ نہیں تو چند اچھا لکھنے والے شعرا ضرور اب بھی اردو دنیا میں اس تخلیقی سلسلے سے وابستہ ہیں اور اپنی دُھن میں عمدہ رباعیات تخلیق کئے چلے جاتے ہیں۔
میرے پاس مکمل فہرست تو نہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں ہی میں پاکستان ، بھارت اور کشمیر سے کئی عمدہ شعرا کی رباعیات مجھ تک پہنچی ہیں۔ پاکستان میں بھی چند شعرا رباعی کے حوالے سے پہچان تک بناچکے ہیں۔ مجموعوں کی بات کی جائے تو رباعی کا مجموعہ چھپنا البتہ ایک بڑی خبر ہوتی ہے اور خال خال ہی ملتی ہے۔ پھر بھی گزشتہ عشرے میں چند پاکستانی شعرا کی رباعیات زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم نام کلر سیداں ( راولپنڈی) سے تعلق رکھنے والے شاعر محمد نصیر زندہ کا ہے جن کی رباعی گوئی کا چرچا ایک عرصے سے ہے
حال ہی میں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام ” میرا دوسرا وجود” میں سو سے زیادہ عمدہ رباعیات پیش کر کے ادبی دنیا کو پھر چونکایا ہے۔ اس کتاب میں 42 نفیس غزلیں اور چودہ نظمیں بھی شامل ہیں۔ گویا یہ شعری مجموعہ اہلِ ذوق کی تسکیں کے لئے ایک ضیافت سے کم نہیں۔
غزلوں اور نظموں پر کسی اور وقت بات کریں گے فی الحال تازہ مجموعہ کلام کے حوالے سے ہی نصیر زندہ کے اختصاص یعنی رباعی گوئی کا تذکرہ ہو جائے۔ تعارف کے لئے ایک اور رباعی دیکھئے
پیدا ہونے کی جستجو کرتی ہے
آئینہ کی صورت آرزو کرتی ہے
جب چاہتی ہے رازِ نہاں کی تشہیر
فطرت شاعر سے گفتگو کرتی ہے
میں نے اوپر بعض رباعی گووں کا ذکر کیا ہے جن کی خشک اور بے تاثیر رباعیات کے سبب اس صنف میں تخلیق کاروں اور شائقین دونوں کی دلچسپی مفقود ہو کر رہ گئی لیکن نصیر زندہ وہ شاعر ہیں جن کی رباعیات پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اس فن کے ساتھ ایک عمر بسر کی ہے اور ہزج کے اس سمندر کو چھان کر رکھ دیا ہے ۔ اب ان کی رباعیات کی صوتیات میں ایسی سہولت پائی جاتی ہے کہ عروض و تقطیع کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔ اخرب و اخر م کی تفریق کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ بظاہر یہ تخلیقات قاری کو عروضی تفکرات و تکلفات سے مبرا کر کے رکھ دیتی ہیں لیکن اپنے اندر نک سک سے درست زبان اور انتہائی محتاط عروضی جانچ کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔
کیا حسن بے مثال پہنا ہوا ہے
گلشن نے مرا جمال پہنا ہوا ہے
اس کی خوشبو سے میری سوچ اگتی ہے
یہ گل نے میرا خیال پہنا ہوا ہے
موزونیت کے اس درجہ کمال تک پہنچنے کے بعد نصیر زندہ اپنے فن اظہار کی اگلی منزل یعنی فکری غور و پرداخت کے عروج کی جانب رواں دواں رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے کلام کو تاریخ و روایت کے تناظر میں جانچا اور پرکھا جائے گا چنانچہ وہ ایک خود احتسابی نظام بنانے اور اسے نافذ کرنے اور قائم رکھنے میں کامیاب رہے جس کے نتیجے میں عمدہ رباعیات کا یہ دلکش گلدستہ ہمیں دیکھنے کو ملا ہے۔ ان کے کلام کا عطر یہ ہے کہ نصیر زندہ حقیقتاً انسانی عظمت کے لئے قلم کے کردار کے قائل ہیں
تہذیب کی شاخ تختی سے اگتی ہے
یہ روشنی حرف پاشی سے اگتی ہے
الفاظ سے نظرئیے جنم لیتے ہیں
تہذیب قلم کی کھیتی سے اگتی ہے
دیکھا جائے تو اردو کی روایت میں موضوعات کی دور رسی اور فکری گہرائی ہی رباعی گوئی کا امتیاز رہی ہے حالانکہ بطور صنف رباعی پر ایسی کوئی پابندی نافذ نہیں کی گئی لیکن دکنی دور کی کچھ رومانوی رباعیات کے بعد زیادہ تر بڑے اور آفاقی مو ضوعات ہی رباعی کی پہچان بنے ہیں۔ کائنات اورنظامِ کائنات پر غور رباعی کا خاصہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ کچھ سماجی اور معاشرتی رویے بھی اس کے اظہار کی حدود میں شامل ہو جاتے ہیں اور محمد نصیر زندہ کا محیط ان تینوں پر ہے۔ تاہم وہ کہیں رومانی انداز دکھاتے بھی ہیں تو اس کا معیار فکری بلندی پر دلالت کرتاہے۔ در اصل ان کے ہاں عامیانہ پن ہے ہی نہیں ۔ ان کا رومانی انداز ملاحظہ کیجئے
چہرے وہ کئی تنگ پہن لیتا ہے
آئینہ کبھی سنگ پہن لیتا ہے
میں اس سے باہر جو نکلنا چاہوں
وہ شوخ مرا رنگ پہن لیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوٹی میں موتیا سجایا اس نے
اونچی ایڑی سے قد بڑھایا اس نے
اک حشر سر بزم اٹھانے کے لیے
زور ایڑی چوٹی کا لگایا اس نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواہش کے سوا جیب میں رکھا کیا ہے
اور جسم کے آسیب میں رکھا کیا ہے
آتی ہے تمنا کے سسکنے کی صدا
لڑکی! تری پازیب میں رکھا کیا ہے
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نصیر زندہ کی شاعری کس وقار اور معنوی کردار کی حامل ہے۔
موضوعات کی رفعت کے ساتھ ساتھ اظہار کے اعلی قرینے نے ان کی رباعیات میں عجب اثر انگیزی بھر دی ہے۔
ان کے رباعیات کے مطالعے سے جی ہی نہیں بھرتا اور قاری مسلسل ان کا مطالعہ کرتا چلا جاتا ہے۔
ایسی سہولت کی توفیق تو یار لوگوں کو عام بحور میں کہے جانے والے رومانی اشعار میں بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔
آرائشِ امکانی کے پردے پڑے ہیں
آئینہ پہ حیرانی کے پردے پڑے ہیں
کھلتا نہیں عشق سے تمنا کا حجاب
تصویرپہ عریانی کے پردے پڑے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوز بدن حرف کا اخگر نکلا
منظر کا دیا دیدہء محشر نکلا
دھوپ اتنی مِرے قریہ ء جاں میں تھی
سورج سایہ پہن کے باہر نکلا
المختصر یہ کہ نصیر زندہ کی رباعیات کی دنیا ایک نئی اور عجب دنیا ہے ۔
ہر صاحبِ ذوق کو اس کی سیر ضرور کرنی چاہیئے۔ آخر میں ان کی یہ چند رباعیات دیکھئے جو عام زندگی اور معاشرتی صورتحال میں بہت اہم ہیں
حالات کی تصویر نظرآتی ہے
ہر خواب کی تعبیر نظرآتی ہے
کردار کو افکار کے آئینہ میں دیکھ
انسان کی تقدیر نظرآتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ہے اس عہدکا عمامہ فروش
ہے ننگ قلم ضمیر کا جامہ فروش
ناموسِ وطن کی بیچتاہے دستار
ذلٗت کا ترجمان ہے خامہ فروش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویر ہے سورج کی ، حرارت کے بغیر
تعلیم کی صورت ہے حقیقت کے بغیر
یہ کالج، یہ رزقِ مفادات کا علم
میراثِ ابوجہل ہے حکمت کے بغیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خورشید بدن کی شعلہ افشانیاں دیکھ
آئینہ پیرہن کی تن آسانیاں دیکھ
عریانیوں سے تراش لیتی ہے لباس
بنتِ حو اکی یہ تن آسانیاں دیکھ
ان خوبصورت فن پاروں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ فن نصیر زندہ جیسے شعرا کے ہوتے ہوئے کبھی مردہ نہیں ہو گا۔
میں “میرا دوسرا وجود” کی اشاعت پر شاعر نصیر زندہ اور ناشر سائل نظامی( قلم دوست مطبوعات گوجرخان) کو مبارکباد پیش کرتا ہوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply