مری کے بے رحم تاجر۔۔سیّد ثاقب اکبر

ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ کربلا میں یزیدی فوج نے امام حسینؑ اور ان کے اہل بیت و انصار کی لاشوں سے لباس بھی اتار لیے تھے۔ یہاں تک کہ امام حسینؑ کے ہاتھ سے انگشتری آسانی سے اتارنے کے لیے انگلیاں کاٹ کر اسے اتارا گیا۔ ہم سوچتے تھے کہ کیا انسان ایسا بے رحم اور ایسا حریص بھی ہوسکتا ہے اور کیا ایک کلمہ گو مسلمان بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ آج جب مری کے بے رحم تاجروں کی کہانیاں اور من مانیاں سنیں تو ایک مرتبہ پھر کربلا کے وحشی یزیدی یاد آئے۔ مری کے تاجروں نے سردی سے ٹھٹھرتے مردوں، عورتوں اور بچوں کو مرنےدیا، لیکن انھیں ان کی حالت زار پر رحم نہیں آیا۔ اس حالت میں انھوں نے جس انداز سے کمروں کے کرایوں کو دس دس گنا کرکے اپنی حرصِ دنیا کو آشکار کیا، اس سے اگر کوئی مخلوق کہے کہ مجھے انسانوں سے خوف آنے لگا ہے تو اس کا کہنا بے محل نہ ہوگا۔

اگر ایک انڈے کی قیمت پانچ سو روپے طلب کی جائے تو اسے وحشی گری کی ہی مثال کہا جاسکتا ہے۔ جب مسافر ایک ایک کمرے کا پچاس سے اسی ہزار روپے تک کرایہ سنتے تھے تو ان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ بچتا تھا کہ وہ اپنی گاڑیوں کے اندر وقت گزارنے کی کوشش کریں۔ وہی گاڑیاں جو آخرکار ان کے لیے تابوت بن گئیں۔ بعض کی تو لاشیں نکالی گئیں اور بعض کو نیم مردہ حالت میں نکالا گیا۔ ایسے بھی لوگ تھے، جنھوں نے اپنے زیورات ہوٹلوں کے مالکوں کے پاس گروی رکھوائے اور ایک رات گزارنے کی اجازت چاہی۔ ایسے میں تو ہوٹلوں کے دروازوں کو کھول دینا چاہیے تھا اور اپنی انسانیت کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ ظلم و ستم اور حرص و ہوا کی داستانیں اس کے سوا بھی ہیں۔ ہر سرکاری محکمے نے اپنے افسران بالا کے لیے مری میں گیسٹ ہائوسز بنا رکھے ہیں۔ ان گیسٹ ہائوسز میں بھی ان دنوں میں افسران بالا موجود تھے۔

بعض سکولوں اور کالجوں کے دروازے تو اس طوفانی سردی اور برفانی ہوائوں سے ٹھٹھرے ہوئے انسانوں کے لیے کھولے گئے لیکن ہمارے علم میں ابھی تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ کسی سرکاری گیسٹ ہائوس کا دروازہ ان مظلوموں کے لیے کھولا گیا ہو۔ یہ سرکاری گیسٹ ہائوسز عوام کے پیسوں سے بنے ہیں، لیکن عوام کی مشکل میں ان کے کام نہیں آسکے۔ جب حکومتی اہلکار اس المیے کے بارے میں تحقیقات کریں گے تو کیا ان کی فہرستِ تفتیش میں یہ گیسٹ ہائوسز بھی آئیں گے یا نہیں؟ شاید ایسا نہ ہوسکے، لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ اس پر بھی تحقیق کرنا چاہیے کہ ان گیسٹ ہائوسز میں ان دنوں کون سے بے رحم انسان نما درندے داد عیش دے رہے تھے اور ان کے دروازوں کے اس پار تاریخ کا ایک نیا ہولناک المیہ جنم لے رہا تھا۔

کیا یہ سب لوگ عذاب خدا سے اپنے آپ کو امان میں سمجھتے ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کچھ نہیں؟ واللہ یہ لوگ ایک امتحان سے گزرے اور بری طرح ناکام ہوگئے۔ خدا پرستی اور خدا خوفی کا موقع آیا۔ بندوں پر رحم کھانے کے لمحے آئے، آخرت کو سنوارنے اور گناہوں کے کفارے کی صورت پیدا ہوئی، لیکن یہ بے رحم انسان محروم رہے۔ کسی نے نقد عیش کر لی اور کسی نے عیش کرنے کے لیے نقدی جمع کرلی۔ یہ نقدی ادھر ہی رہ جائے گی اور اس کے حساب کے لیے یہ انسان نما بارگاہ پروردگار میں حاضر ہو جائیں گے۔ البتہ ان غریب مری والوں پر سلام ہے، جو کسی تصویر و تشہیر سے بے نیاز اپنے گھر میں موجود سامان ضرورت مندوں تک پہنچاتے رہے۔ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنے گھر میں مصیبت زدوں کو پناہ دی۔ ایسے بھی ہیں جنھوں نے گاڑیوں کا راستہ صاف کرنے میں مدد کی۔ جن کی انسانی فطرت اپنی نورانیت کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ یہی لوگ انسانیت کی آبرو ہیں اور فرشتوں کے سامنے اللہ کے بندوں کو سرخرو کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دنیا والے انھیں نہ جانتے ہوں، لیکن آسمان والے انھیں خوب پہچانتے ہیں۔

خدمت گزاروں کی بہت سی خبریں ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں آچکی ہیں۔ ویڈیوز بنائی جا چکی ہیں۔ تصویریں شائع ہوچکی ہیں، جنھوں نے شہرت اور تصویر کے لیے ایسا کیا، انھوں نے بھی اپنی مراد پا لی۔ جنھوں نے اللہ کی رضا کے لیے ایسا کیا، وہ بھی ہرگز محروم نہیں رہیں گے، لیکن ایسے میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کی خدمت گزاری کی خبریں ہم تک نہیں پہنچیں۔ ان میں سرکاری محکمے اور ان کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ضرور اپنی تائید اور تحسین سے نوازے گا کہ وہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ان سارے واقعات سے یہ واضح ہوگیا کہ نام رکھنے سے بلکہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کی بہت ساری آیات بھی اس پر شاہد ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے وہ کام کرنے ضروری ہیں، جو ایک مسلمان کے شایان شان ہیں اور وہ کام ترک کرنے ضروری ہیں، جو حیوانیت کے زمرے میں آتے ہیں۔

قرآن حکیم ایک طرف ایسے اہل ایمان کی تصویر کشی کرتا ہے: وَ یُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْکیناً وَ یَتیماً وَ أَسیراً “اور جو لوگ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔” اس سے آگے فرمایا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی رضا کے لیے تمھیں کھانا کھلایا ہے، ہم تم سے کوئی بدلہ بلکہ شکریہ بھی نہیں چاہتے۔یہ آیات سورہ دہر کی ہیں، جس کی شان نزول میں کہا گیا ہے کہ اہل بیت رسالتؐ کے ایثار کے ایک واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی، جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ روز جزا کو نہیں مانتے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتے ہیں اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے، ایسے نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو دکھاوا کرتے ہیں۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں، لیکن چونکہ یتیم اور مسکین کے ساتھ ان کا سلوک غیر انسانی ہے، اس لیے انھیں معاد اور قیامت کا منکر قرار دیا گیا ہے اور ان کی نمازوں کو ان کے منہ پر دے مارا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مری میں جن لوگوں نے ظلم، شقاوت اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ تیار رہیں، عذاب الٰہی کے لیے، جو واقع ہو کر رہنا ہے، مگر یہ کہ توبۃ النصوح کی طرف آئیں اور باقی زندگی تلافیٔ مافات اور خدمت خلق کے لیے وقف کر دیں، شاید اللہ تعالیٰ ان پر رحم کر دے۔ جن اداروں اور تنظیموں نے مصیبت زدگان کی مدد کی ہے، ہم انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سرکاری ادارے، این جی اوز، الخدمت اور امامیہ اسکائوٹس کے رضاکار، مختلف مدارس اور مساجد کی انتظامیہ اور دیگر تنظیمیں اور ادارے سب ہماری طرف سے محبتوں اور شکرانے کے حق دار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply