جھوٹ اور ادب۔۔عارف خٹک

پوری دنیا میں جھوٹے لوگوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ صدیوں سے ان درجہ بندیوں کیلئے مختلف ڈائنامکس کا استعمال کیا گیا ہے جس کیوجہ سے یہ درجہ بندیاں کی گئیں ۔

1۔ ایک وہ جو بلاوجہ جھوٹ بولتے ہیں
2۔ دوسرے وہ جھوٹ بولنا ان کی فطرت میں ہو
3۔ سوم وہ جو قدرت کی طرف سے پیدائشی جھوٹے ہوں۔

درجہ ایک میں شامل افراد، بلاوجہ جھوٹ بولنے والوں میں سے زیادہ تر لوگ نفسیاتی الجھنوں کے شکار ہوتے ہیں۔ یا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر ایک ڈر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر انھوں نے سچ بولا تو ان کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لئے غیر ارادی طور وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ نفسیات کی  رو سے ایسے لوگ احساس کمتری اور کمزور شخصیت کے شکار لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے جھوٹ خطرناک نہیں ہوتے بلکہ بے ضرر ہوتے ہیں۔

درجہ دوم میں شامل افراد جو جھوٹ بولنے والے تیسرے درجے کے نفسیاتی لوگ ہوتے ہیں۔ بچپن سے نامساعد حالات کا سامنا کرتے کرتے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ ان سے سچ کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔ ایسے لوگ فورا ً پہچان میں آجاتے ہیں مگر یہ لوگ اپنے جھوٹ کے  دفاع میں جانتے بوجھتے مزید جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔

سب سے گھٹیا تیسری درجہ بندی میں شامل پیدائشی جھوٹے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ انتہائی منافق اور ظالم ہوتے ہیں یہ جان بوجھ کر جھوٹی کہانیاں سنا کر ہجوم کو بے راہ کردیتے ہیں۔ سیاست داں اور مصنفین اس درجہ میں شامل افراد ہیں۔ ان کی جھوٹی فینٹاسیز اور جھوٹے خواب اتنے پُرکشش ہوتے ہیں کہ عام انسان حقائق سے نظریں چرا کر ان کی راہ چل نکلتے ہیں اور اپنا وقت، پیسہ اور صلاحیتیں تباہ کرڈالتے ہیں۔ یہ لوگ اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ اگر ان کو بتا بھی دیا جائے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں تو یہ مختلف تاویلیں بنا کر آپ کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ یہ آپ کی لاعلمی ہے۔

میں ذاتی طور ان تین درجہ بندیوں کے حامل افراد کو اپنی ناپسندیدہ فہرست سے نکال سکتا ہوں کہ ان کے جھوٹ پھر بھی قابل برداشت ہیں۔ ان کو ڈیل کیا جاسکتا ہے اور ان کے بولے گئے جھوٹوں کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ میں ان سب کو اسپیس دے سکتا ہوں کیونکہ یہ جانتے بوجھتے معصوم بننے کی  صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو ان کے جھوٹوں پر بے تحاشا پیار بھی آجاتا ہے اور کبھی کبھار دل کھول کر قہقہے بھی لگا لیتا ہوں۔

میرے لئے قابل نفرین اور گھٹیا قسم کے جھوٹوں کی ایک چوتھی قسم کی درجہ بندی ہے۔ ان کے جھوٹ دیکھ کر میرے اوسان خطا  ہوجاتے ہیں۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں ان کے منہ نوچ کر ان کی زبانیں ان کی گدی سے نکال کر باہر پھینک دوں۔ ان کی انگلیاں توڑ کر ان کو ساری زندگی کیلئے اپاہج بناؤں تاکہ یہ دوبارہ کسی تھرڈ کلاس مصنف کی کتاب پر یہ نہ لکھیں
“فلاں نے نہایت ہی کم وقت میں اردو ادب میں ایک نمایاں مقام بنایا ہوا ہے۔ فلاں کے جملوں میں ایک تیکھا پن اور ایک کاٹ ہے۔ اس وجہ سے بعض کرداروں سے محبت، نفرت، بیزاری یا غصہ کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اس وقت ان مصنفین کیساتھ زنا بالجبر کا ارادہ مزید مضبوط ہوجاتا ہے جب مصنف اپنے دیباچے میں لکھ دیتا ہے۔
“میری لائف کی انسرٹینٹیز میں میرے موسٹ فیورٹ پیرنٹس نے جتنا میرا ساتھ دیا ہے۔ بی لیئو می اگر میرے پاپا یا مما نہیں ہوتے جنہوں نے لائف کے ہر ٹرن پر مجھے کانفیڈنس دیا کہ سن یو آر اے جینیس گائے(Son u are a genius guy)،اور آج میں اس قابل ہوا ہوں کہ میری کتابی کاوش آپ کے سامنے ہے۔ میں یہ کتاب اپنے کلوز فرینڈ جمی اور مما پاپا کے نام کررہا ہوں۔”

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply