ایم ایم اے کی بحالی اب یقینی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایم ایم اے کی بحالی کے پی کے کی سیاست پر کوئی قابل قدر نتائج اخذ کر سکتی ہے؟اس کا تجزیہ کرنے کےلیے ہمیں کے پی کے پچھلے نتائج اور الیکشن سے لے کر اب تک کی ہونے والی سیاسی ڈویلپمنٹس پر غور کرنا پڑے گا۔پچھلے الیکشن میں جمعیت اور جماعت کے علاوہ ان تمام مذہبی جماعتوں نے حصہ نہیں لیا تھا جو اب ایم ایم اے کا حصہ بن رہی ہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک جمعیت اور جماعت کے ہی کھاتے میں گیا تھا۔ دوسری طرف بہت سے ایسے آزاد امیدوار بھی سامنے آئے تھے جو جیت تو نہ سکے مگر انہوں نے کافی زیادہ ووٹ لیے۔
الیکشن کے بعد دو بڑے کام ہوئے۔ ایک ایم ایم اے کا بننا اور دوسرا اے این پی، پی پی، جماعت اور جمعیت سمیت بہت سے آزاد امیدواروں کا ان حلقوں میں تحریک انصاف میں شمولیت ہے جہاں پہلے تحریک انصاف نہ جیت سکی۔اگر ہم جماعت اور جمعیت کے پچھلے الیکشن میں پڑنے والے ووٹ جمع کر لیں تو کے پی اور فاٹا کی قومی اسمبلی کی چھے نشستیں ایسی سامنے آتی ہیں جن میں ابھی تو کوئی اور جماعت فاتح ہے مگر اتحاد کی صورت میں وہاں ایم ایم اے اس بار بازی مار سکتی ہے۔ ان میں سے این اے دس اور این اے گیارہ مردان پر پی ٹی آئی، این اے آٹھ چارسدہ پر قومی وطن پارٹی،این اے بتیس چترال پر مشرف کی جماعت، این اے چھتیس فاٹا پر آزاد جبکہ این اے چوالیس فاٹا پر مسلم لیگ ن کے امیدوار موجودہ ایم این اے ہیں۔
دوسری طرف اس اتحاد اور مختلف امیدواران کی تحریک انصاف میں شمولیت سے چھ ایسے حلقے ہیں جہاں پہلے تحریک انصاف کو شکست ہوئی مگر اب وہاں تحریک انصاف کی پوزیشن ایم ایم اے اور دوسری جماعتوں سے بہتر ہے۔ ان میں این اے بیس مانسہرہ ،این اے اٹھائس بونیر ،فاٹا کے چار حلقے این اے انتالیس، این اے بیالیس، این اے پینتالیس اور این اے چھیالیس شامل ہیں۔
اس ساری بحث کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے تحریک انصاف کی دو نشستیں خطرے میں تو ہیں مگر تحریک انصاف اس کے نتیجے میں چھ دوسری نشستیں جیت سکتی ہے۔ یعنی کہ حتمی تجزیے میں یوں کہہ لیجیے کہ ایم ایم اے اور تحریک انصاف دونوں ہی اس بار چار چار مزید نشستیں جیتیں گی۔

لیکن ایک نقطہ جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے الیکشن میں سپہ صحابہ، جماعت دعوۃ اور دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے جمعیت اور جماعت کو ووٹ دیا تھا جبکہ اس بار وہ خود الیکشن میں اترنے لگی ہیں اور یہ ایم ایم اے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی ایک مثال ابھی این اے چار کا ضمنی الیکشن ہے جہاں جماعت کا ووٹ سولہ ہزار سے کم ہو کر چھ ہزار پر آ گیا تھا کیونکہ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے آٹھ ہزار ووٹ لیے۔ اگر یہی ٹرینڈ اگلے الیکشن میں بھی جاری رہا تو پھر ایم ایم اے شاید موجودہ نشستیں بھی حاصل نہ کر پائے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں