شربت گلا کے دکھ کب ختم ہونگے؟

شربت گلا کے دکھ کب ختم ہونگے؟

لیونارڈو کی آرٹ کی کا عظیم فن پارہ اسکی لافانی تخلیق مونا لِزا ،
سبز آنکھوں والی افغان لڑکی شربت گلا،
جسے افغانی مونا لِزا کہا گیا۔
اور نیلی آنکھوں والا چائے والا پاکستانی لڑکا؛
تصویر سے شہرت پانے والی تین شخصیات،
مگر مقدر مختلف…..

ایک ارشد خان ہیں جو ایک اتفاقی بنائی گئی تصویر سے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئے… اور اب گلیمر کی دنیا میں عزت شہرت دولت کی بلندیوں پہ براجمان ہیں۔
جنہیں کرہ عرض کا خوبصورت مرد کہا جا رہا ہے… ایک دنیا اسکی نیلی آنکھوں کے سحر میں مبتلا ہے۔

مونا لِزا ;
جو لیونارڈو کے مصورانہ فن کا عظیم شاہکار ہے۔
اس تصویر میں ایک خاتون مسکراتی ہوئی دکھائی گئی ہے عرصہ دراز تک یہی سمجھا جاتا رہا اور خوبصورت مسکراہٹ کو مونا لِزا کی مسکراہٹ سے تشبیہہ دی جاتی..
مگر جب تحقیق کی گئی تو کئی رائے سامنے آئیں.

ایک رائے یہ بھی کہ یہ اس تصویر میں مونا لِزا سے سے مسکرا ہی نہیں رہیں.. ..
مگر اس خیال کو پذیرائی نہ مل سکی۔
اس تصویر میں مصور نے دراصل ایک کرب ایک دکھ بیان کیا ہے اور یہ مسکرہٹ کرب آمیز مسکراہٹ ہے..

ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کے اس تصویر میں ایک تحیر کی رمق ہے۔ مزید تحقیق پہ پتہ چلا کہ مونا لِزا نے ایک بچے کو جنم دیا تھا دراصل یہ ایک ماں کی ممتا اور اطمینان بھری مسکراہٹ ہے۔ اس مسکراہٹ کی کئی تاویلیں پیش کی گئیں مگر حقیقت ہے کہ یہ بھید بھری مسکراہٹ کی اصل تاویل ہنوز معلوم اندھیرے میں ہے۔
میں اسے ماں کی ممتا بھری الوہی مسکراہٹ قرار دوں گا

آئیے اب ایک اور ماں افغانی مونا لِزا کی بات کریں۔
جیوگرافک میگزین نے سبز آنکھوں والی اس لڑکی کی تصویر 1985ءمیں اپنے سرورق پر شائع کی تھی اور یہاں سے اس لڑکی نے عالمگیر شہرت حاصل کی تھی۔
اس وقت اس لڑکی کی عمر بارہ سال تھی اور اس کا نام شربت گلا بتایا گیا تھا۔
یہ شہرہ آفاق تصویر پشاور کے نواحی علاقے میں قائم افغان مہاجرین کے کیمپ میں فوٹو گرافر" اسٹیو میکری" نے لی تھی اس تصویر کو درد کا تحیر کا معصومیت کا استعارہ قرار دیا گیا اقوامِ عالم اس خانہ بدوش لڑکی کی سبز آنکھوں میں ڈوبی رہی یہ سبز سمندر آنکھیں جو دنیا کے تاجداروں سے سوال کرتی محسوس ہوتیں ہیں کہ اسکی دربدری کب ختم ہو گی..؟

اس تصویر کو بہت سراہا گیا اور یوں معصوم افغانی لڑکی انٹرنیشنل سلیبریٹی بن گئی مگر یہ شہرت بھی اسکے کام نہ آ سکی….اسکے دکھ کا مداوا نہ بن سکی..
اسی فوٹو گرافر نے نے بہت عرصے بعد شربت گلا کا 2002ء میں سراغ لگا لیا تھا وہ افغانستان کے ایک گاؤں میں رہتی تھی اور تین بچیوں کی ماں بن چکی تھی اور گمنامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔
اب تیرہ سال کے وقفے کے بعد شربت گلا سے شربت بی بی بننے والی یہ افغان عورت ایک مرتبہ پھر پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق شربت گلالہ نے اپریل 2014ء میں پشاور کے علاقے حیات آباد سے پاکستان کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ حاصل کر لیا ساتھ میں اسکے دو بچوں کا بھی کارڈ جاری کیا گیا… جبکہ شربت گلا کی تین لڑکیاں تھیں تحقیق کی جا رہی ہے کہ یہ لڑکے کون ہیں مگر عموماً افغان مہاجرین اسطرح سے شناختی کارڈز بنوا لیتے ہیں۔

یہاں شربت گلا شربت بی بی کے طور پہ بطور پاکستانی شہری کے منظرِ عام پہ آئی…

اب پھر وہی عالمی شہرت یافتہ لڑکی زندگی اس موڑ پہ جب وہ ڈھلتی عمر کی عورت ہے دوبارہ سے خبروں کی زینت ہے۔ وزارتِ داخلہ کے سخت احکامات کی وجہ سے شناختی کارڈز کی ویریفکیشن سے شربت بی بی المعروف شربت گلا کا کیس سامنے آیا اور گورنمنٹ پاکستان نے اسکا کارڈ بلاک کر دیا شربت گلا کو بھی ریرِ حراست لے لیا گیا ہے۔

شربت گلا کون ہے کہاں سے آئی افغانی ہے کہ اب پاکستانی؟
اسکی شناخت کیا ہے….؟ ان سب باتوں سے قطع نظر شربت گلا ایک ماں ہے جو 32 سال سے مقدر کے صحرا میں بھٹک رہی ہے…
دنیا میں تمام ممالک کے شہریت کے قوانین مختلف ہیں۔
کئی ممالک تارک الوطن شخص کو ایک مخصوص عراصہ گزارنے کے بعد اس ملک کی شہریت کی پیشکش کی جاتی ہے…. اسی طرح کئی یورپین ممالک ميں دوران رہائش بچے کی پیدائش پہ نہ صرف وہاں جنم لینے والا بچہ بلکہ والدین کو بھی ایک طریقہ کار کے بعد شہریت دے دی جاتی ہے۔
اب شربت گلا جیسی کئی مہاجر مائیں عرصہ دراز سے کیمپوں میں رہ رہی ہیں انکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

تعجب خیز بات یہ کہ بنگلہ دیش میں عرصہ دراز سے ہزاروں پاکستانی ریفیوجی کیمپوں میں مقیم ہیں اور انکی نئی نسل انہیں کیمپوں میں پروان چڑھی مگر ظلم اور بے حسی کی انتہا ہے کہ اب انہیں نہ تو پاکستان قبول کرتا, یے نہ ہی بنگلہ دیشی گورنمنٹ…. اب اسی طرح کی صورتحال پاکستان میں افغان مہاجرین کو درپیش ہے۔
ستم یہ ہے افغان مہاجرین کے متعلق پاکستان کی پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے۔
جو افغان بچے پاکستان میں پیدا ہوئے پلے بڑھے جوان ہوئے اب انہیں غیر ملکی مہاجرین کہہ کہ افغانستان دھکیلا جا رہا ہے… ایسے بچے زندگی بھر نفسیاتی سماجی ثقافتی مسائل کا شکار رہیں گے اسطرح ایک بڑا انسانی المیہ جنم لینے کا خدشہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی حکومت کو چاہئیے کہ افغان مہاجرین کی شہریت کے متعلق مستقل حقیقت پسندانہ انسانی ہمدردی کے اصولوں پہ مبنی پالیسی وضع کرے۔

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply