• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اُمتِ سیدِ لولاک سے خو ف آتا ہے ۔۔محمود اصغر چودھری

اُمتِ سیدِ لولاک سے خو ف آتا ہے ۔۔محمود اصغر چودھری

اُمتِ سیدِ لولاک سے خو ف آتا ہے ۔۔محمود اصغر چودھری/ امریکہ میں جب ایک پادری نے قرآن مجید کے دو سو نسخے جلانے کا اعلان کیا تو میرے دوستوں کو اٹلی میں کیمونسٹوں کے اِک گروہ نے گھیرا ہوا تھا اور انہیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ تم مسلمان کتنے جذباتی اور انتہا پسند ہوکہ اسے قتل کرنے کی بات کر رہے ہو ۔ اتفاق سے میں بھی اِدھرجا نکلا ۔انہوں نے مجھے بھی بلا لیا ۔اورپوچھنے لگے کہ محمودتم بتاؤ  اگر امریکہ میں دو سو قرآن جلائے جاتے ہیں تو تمہار ا ردِ عمل کیا ہوگا ۔ میں نے کہا اس میں ردِعمل کی کیا بات ہے ۔ کون سا دنیا میں پرنٹڈ پریس ختم ہوگئے ہیں وہ جلائیں گے تو ہم اور پرنٹ کر لیں گے ۔ان سب نے ایک زور دار قہقہہ لگا یا ۔لمبے بالوں والے لوکا نے سگریٹ کا لمبا سا کش لیا اور بولا تمہیں واقعی غصہ نہیں آئے گا ۔میں نے کہا اس میں غصے کی کیا بات ہے ۔ اگر کوئی پاگل شخص کوئی عجیب حرکت کرے گا تو مجھے اس سے ہمدردی ہوگی یاغصہ آئے گا ؟کتابیں توپڑھنے کے لئے ہوتی ہیں جو انہیں جلانے کی بات کرے وہ کوئی پاگل ہی ہوگا۔

ایرینے بولی اب یہ بھی نہ بولو کہ تمہیں دکھ نہیں ہوگا ؟ میں نے کہا دکھ ہوگا دکھ کیوں نہیں ہوگا ۔ آپ کے ایک فٹ با ل میچ میں ایک کھلاڑی نے اپنی شرٹ اتار کر زمین پر پھینکی تھی تو آپ سب کو غصہ آگیا تھا کہ شرٹ پر ہمار ے پرچم کی تصویر تھی ۔ آپ کے ملک کے آئین کی اگر میں کاپیاں پھاڑ کر جلانا شروع کر دوں تو آپ کو دکھ نہیں ہوگا ؟۔اس طرح قرآن کریم ہمارے لئے زندگی گزارنے کا آئین و قانون ہے ۔ اس کی کاپیاں جلائے جانے پر یقینا ً ہمیں افسوس ہوگا ۔لیکن دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں ہلاکو خان جیسے قابضین نے قرآ ن جلانے ،اسلام کی کتب دریا برد کرنے اورلائبریریاں تاراج کرنے کی کوشش کی ،لیکن آج تک قرآن کو کچھ نہیں ہوا بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے لیا ہے تو جس کی حفاظت خود خدا کر رہا ہے اس کے لئے مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔

وہ چلے گئے تو شفاقت ہنسنا شروع ہوگیا او ربولا تم نے یہ سب ان گوروں کو خوش کرنے کے لئے کہا ہے نا ؟ ۔میں نے اس سے پوچھا اچھا بتاؤ  کہ قرآن کی بے حرمتی ہوتی کیا ہے ؟ جب عدالت کسی شخص کو سمن بھیجتی ہے اور اسے عدالت میں حاضر ہونے کا آرڈر جاری کرتی ہے تو اگر وہ شخص اس سمن کو پھاڑ کر پھینک دے تو کیا وہ عدالت کی توہین ہوجائے گی ۔نہیں ایسا کوئی قانون نہیں ہے ۔البتہ اگر وہی شخص عدالت کے سمن یا حکم کو نہیں مانتا اور عدالت میں نہیں جاتا تو وہ توہین کا مرتکب ہوتا ہے، کیونکہ عدالت نے اس شخص کوحاضر ہونے کا کہا تھا اور وہ نہیں آیا ۔اب اس کے خلاف وارنٹ نکلے گا ۔ قرآن میں کیا لکھا ہے، اس کے احکامات کیا ہیں ۔ وہ کن باتوں سے روکتا ہے اور کن باتوں پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ ان تمام باتوں سے تو ہم بھاگتے ہیں ۔ اور اس میں لکھے ہوئے احکامات کو نہیں مانتے تو اصل میں اس کی توہین کون کر رہا ہے ۔ ہم کر رہے ہیں۔۔ جو اس کی نہیں مانتے، اس پر تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر اس آرڈر کو کوئی پھاڑ دے تو اس کے قتل کے فتوے لیکر باہر نکل آتے ہیں اور دنیا بھر میں تماشا بن جاتے ہیں۔

سیالکوٹ میں ایک پیپر پر کچھ اردو میں لکھا ہوا تھا ۔ایک ویڈیو میں نوجوان بتا رہا ہے کہ اس پر یاحسین علیہ السلام لکھا تھا ۔اس پیپر کو اکھاڑپھینکے کے جرم کی پاداش میں مزدوروں نے ایک ایسے سری لنکن منیجر کومار کر اس کی لاش جلا دی جسے اردو پڑھنی بھی نہیں آتی تھی ۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ  ہم مسلمانوں نے اسی حسین رض اور اس کے خانوادے سے کیا سلوک کیا ؟آج علمائے کرام سے یہ سوال ہے کہ توہین کی تعریف کیا ہے ۔ اس کی حد کیا ہے ، کون فیصلہ کرے گا کون سزا دے گا اگر اس کاتصور واضح نہ ہوا تو معاشرہ ایسا تنور بن جائے گا جس میں رہنا نا ممکن ہوجائے گا ۔

ہمیں بطور اوورسیز یہ سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے کہ ایک غیر ملکی کو جو ہمارے ملک میں ہماری معیشت کو ٹھیک کرنے کی خاطر محنت کر رہا تھا اسے ہم نے اتنے برے طریقے سے قتل کیا کہ زمانہ ہماری سفاکی اور بربریت کی مثال دیا کرے گا ۔ ہم خود بھی دوسرے ممالک میں موجود ہیں اور ہمیں زبان بھی نہیں آتی ۔ پتہ نہیں ہمارے میزبانوں نے ہماری زبان کی مشکل کی وجہ سے ہماری کتنی غلطیاں برداشت کی ہوں گی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ سال پہلے اٹلی میں ایک مسلمان والد نے سکول پر اعتراض لگایا تھا کہ کلاس روم میں صلیب لگی ہوئی ہے اسے  ہٹا یا جائے کیونکہ اٹلی کے آئین کے مطابق سکولوں کو سیکولر ہونا چاہیے ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکے بچے کے دل میں صلیب کا احترام بیٹھ جائے ۔ ایک دن وہی مسلمان ایک ہسپتال میں گیا اور ہسپتال میں لگی ایک صلیب کو اکھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا لیکن اس کے باوجود ملک میں کسی قسم کا احتجاج نہیں ہوااور اس کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔

اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ دنیا بھر میں انتہا پسندی کے واقعات ہوتے ہیں اور دہشتگردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا ان واقعات کے بعد کیا ردِعمل دیتی ہے کیا وہ انتہا پسندوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے یا ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔کیا ان سے قطع تعلق کرتی ہے یا انہیں پھولوں کے ہار پیش کرتی ہے ۔ کیا دینی جماعتیں ان کا استقبال کرتی ہیں انہیں اسٹیج پر کھڑا کرکے ان سے  تقاریر کرواتی ہیں ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے واقعات کے بعدانتہا پسندوں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ سری لنکن منیجر کو قتل کرنے والے دو تین نوجوان نہیں تھے بلکہ ایک ہجوم تھا ۔پشاور یونیورسٹی میں ایک نوجوان کو قتل کرنے والے طلباءکا بھی ہجوم تھا ۔ ایک بنک منیجر کو قتل کرنے والے گارڈ کے ساتھ بھی پورے شہر کا ہجوم تھا ۔ پولیس نے اسے چائے پلائی تھی ۔ میڈیا نے اس کا انٹرویو کیا تھا ۔ سیالکوٹ واقعہ کے بعد جو ویڈیو جاری ہوئی ہے اس میں نوجوانوں کے اعترافی بیان کے بعد دیگر نوجوان نعرے لگا رہے ہیں اور اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے ۔ ہمارے ہاں قاتلوں کو ہیرو ، غازی اور مجاہد کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ ایک انسانی جان لینے والے  کی نیت کا ثواب دیکھنے کی بات کی جاتی ہے ۔ اگر ہمارے دینی طبقے نے صرف زبانی مذمت کی گردان جاری رکھی تو نفرت کی یہ آگ سب کچھ جلا کر رکھ دے گی ،جس میں نہ صرف ملک کی عزت ، سیاحت اور معیشت داؤ  پر لگ جائے گی بلکہ یہ واقعات اسلام کی بدنامی کا بھی باعث   بنیں گے،
رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان

Advertisements
julia rana solicitors

امت سید لولاک سے خوف آتا ہے!

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply