• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسانی حقوق کا عالمی دن اور اقلیتوں کا پاکستان۔۔سونیا پطرس

انسانی حقوق کا عالمی دن اور اقلیتوں کا پاکستان۔۔سونیا پطرس

انسانی حقوق کا عالمی دن اور اقلیتوں کا پاکستان۔۔سونیا پطرس/ مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کوئی نئی بات نہیں،وطن عزیز میں تو آئے رو ز انفرادی اورگروہی طور پر مشتعل افراد کے ا نسانیت سوز کارنامے خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں،عام عوام خاص طور پر کمزور طبقے کی خواتین اور غیر مسلم شہریوں پر تشدد، زیادتی، جنسی ہراسانی حتیٰ کہ ان کی ہلاکت کی خبریں بھی دہشت گردی کی طرح معمول بنتی جا رہی ہیں، مگر آخر کب تک ایسے ہی زندہ لوگوں کو مذہب کے نام پرلوٹا، مارا، اور جلایا جائے گا، کب تک ذاتی عناد، مفاد اور بغض میں کیے گئے قتل پر یہ فقرے دہرائے جاتے رہیں گے کہ مرنے والے نے مذہب، مقدس کتب یا شخصیات کی توہین کی تھی؟ کب تک یہ توجیح پیش کی جاتی رہے گی کہ ملزم اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں؟اس گرداب سے نکلنے تک کتنی لاشیں اُٹھانی پڑیں گی؟ اور کتنے پرانتھا کمار ریاستِ مدینہ کی تشکیل کی آڑ میں مذہب کے نام پرقربان کیے جائیں گے؟

سوچ رہی ہوں کہ 10 دسمبر کو جب پوری دنیا انسانی حقوق کا عالمی دن اس طور پرمنا رہی ہو گی کہ مستقبل میں مزید کن شعبہ جات یا حقوق ِانسانی کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، اور کیسے اس ضمن میں آگے بڑھا جا سکتاہے تو پاکستان میں ان دنوں شاید یہ حساب لگایا جا رہا ہوگا کہ کون کون سے طبقات کو انسانی حقوق کی فراہمی کی بات کرنے کے پیچھے غیر ملکی سازشیں چھپی ہیں، اور کون سے لوگ ان ممالک کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جو پاکستان جیسے آئی ایم ایف زدہ، مقروض اور پسماندہ ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالانکہ غور کرنے کی بات یہ ہونی چاہیے  کہ اس دن کی مناسبت سے کیا لائحہ  عمل ترتیب دیا جائے کہ سانحہ سیالکوٹ جیسے دن بار بار نہ دیکھنے پڑیں، جس میں ایک سری لنکن محنت کش پر توہین ِ مذہب کا الزام لگا کر اُس پر   بہیمانہ تشدد کر کے لاش جلا دی گئی۔ویسے بھی عرض کیا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزام میں پاکستانی اقلیتی شہریوں سے زندگی کا حق چھین لینا خاص بات نہیں ہے، کیو نکہ پاکستان میں مذہب اور مذہب سے وابستہ کتب اور شخصیات کی عزت واحترام صرف اور صرف اقلیتوں پر ہی فرض ہے اور اگر وہ اس سے ذرا  سی غفلت بھی برتیں تو ہولناک موت اُن کا مقدر ہوتی ہے اور اب اس فہرست میں غیر ملکی غیر مسلم بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔نتیجتاً  اس فتنے کو ختم کرنے یا عوام کو شعور دینے کے زاویے پر سوچ بچار کے لیے درکار وقت عالمی طاقتوں کی پاکستان پر بُری نظر اور غیر مسلم پاکستانیوں کے بُرے نظریے کا ڈھنڈورا پیٹتے گزر جاتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو تنوع کسی بھی معاشر ے کا حسن ہوتا ہے جہاں ایک ہی زمین پر ہمیں مختلف رنگ، نسل، ثقافت، زبان، اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، مگر بد قسمتی سے پاکستان کے نام نہاد مالکان اور مذہبی رہنماء اس حسن کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں کہ انہیں لسانیت، مذہب، رنگ، نسل حتیٰ کہ طرز ِ معاشرت کا فطری اختلاف یا تنوع بھی برداشت نہیں اور اس ضمن میں قتل و غارت گری کے بہانے تلاش کرتے انہیں 74برس ہو گئے۔ اوّل توپاکستان کے سیاست دان حقوقِ  انسانی کے تناظر میں قانون سازی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، اور اگرعالمی اداروں کے دباؤ پر وہ تیار ہوئے بھی تو مذہبی علما  و مشائخ نے کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی نام نہاد قومی غیر ت کے نام پر حقوق ِ انسانی کے تصورات کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ان کو بنیاد بنا کرتوہینِ مذہب کے ایسے فتوے صادر کرتے ہیں کہ سادہ لوح عوام مشتعل ہو کر انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتے۔جیسا کہ سیالکوٹ میں ہجوم نے ایک انسان کی جان لینے حتیٰ کہ اسے جلانے میں ہچکچاہٹ تک کا مظاہرہ نہیں کیا۔

دوسری طرف کہنے کو تو وزیراعظم ریاست مدینہ بنانے کے خواہش مند ہیں اورچاہتے ہیں کہ یونیورسیٹیوں میں پی ایچ۔ڈی تک کی سطح کے طلبہ ریاستِ مدینہ پر تحقیق کریں اور پاکستان کو ویسی ہی فلاحی ریاست بنا نے میں مدد کریں،مگر شاید اُنہیں حقائق سے لا علم رکھا گیا ہے کہ مشال خان یونیورسٹی کا ہی طالب علم تھا جس کی زندگی ایسے ہی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں چھین لی گئی۔ انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ جہا ں ہم نوجوان نسل کی ذہن سازی ہی مذہبی شدت پسندوں کی پشت پناہی کر کے یا ریاستی اداروں کے اہلکاروں اور عوام کے قاتلوں کو آزاد کر نے جیسے اقدامات سے کررہے ہیں وہاں ان سے ریاست ِ مدینہ کی تشکیل میں معاونت کے خواب دیکھنا جھاڑیوں میں گلاب ڈھونڈنے جیسا ہے۔ کیونکہ ریاستِ  مدینہ کی تاریخ میں ہمارے جہالت زدہ معاشرے جیسی شاید ایک بھی ایسی مثال نہیں ملے گی جہاں مذہب کے نام پر خون ِ ناحق کی تبلیغ کی گئی ہو یا پشت پناہی کرنے کا واقعہ پیش آیا ہو۔جبکہ پاکستان میں مذہبی عدم برداشت اور نسل پرستی کی بنیاد پر قتل کے واقعات کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ چند دہائیاں پہلے بویا گیا منافرت کا بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ایسے واقعات(پرانتھا کمار2021، مشعل خان 2017،یو حنا آباد,2015 شمع بی بی اور شہزاد مسیع2014،رمشاء مسیح2012،سانحہ گوجرہ 2009،و دیگر) اُس درخت کے پھل کی شکل میں پاکستان کی قسمت کو حقیقی معنوں میں تاریک کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر انسانی جان کی اہمیت اور حفاظت کی غرض سے قوانین بنانے سے اجتناب برتنے کی روایت نہ بدلی گئی اور بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد اور ان قوانین بشمول بابت انسانی حقوق کی آگاہی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے اداروں کو ریاستی پشت پناہی فراہم نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ معاشرہ نہ صرف انسانی، مذہبی و معاشرتی اقدارکھو دے گا بلکہ ملکی سلامتی اور قومی اتحاد کو بھی داؤ پر لگا دے گا۔

اس لیے اس واقعے کو حتمی وارننگ سمجھتے ہوئے اس بار انسانی حقوق کے عالمی دن کو غنیمت سمجھتے ہوئے حکومت کو ریاست کے ہر شہری اور اس کی حدود میں موجود ہر انسانی جان کے تقدس پر پہرہ دینے کا عہد کرنا ہو گا، اور قانون کی حکمرانی کے آئینی فریضے کو ہر صورت مقدم رکھنے کے فیصلے پر قائم رہنے کا اعلان کرنا ہو گاتاکہ کوئی جہالت زدہ مشتعل ہجوم بھی آئندہ ایسے کسی اقدام سے باز رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ایم فل سکالر، کارکن انسانی حقوق)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply