کینسر (44) ۔ مہلک پودا/وہاراامباکر

سن 1761 میں لندن کے ایک نوجوان دواساز جان ہل نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک بظاہر بڑی معصوم لگنے والی شے کارسنوجن ہے۔ شائع کردہ پمفلٹ میں ہل نے دعویٰ کیا تھا کہ تمباکو ہونٹ، منہ اور گلے کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہل کا خیال ایک عادت، ایک ایکسپوژر اور ایک خاص قسم کے کینسر کے درمیان تعلق کی مدد سے لگایا جانے والا اندازہ تھا۔
چونکہ ہِل نے میڈیکل زبان استعمال نہیں کی تھی اور ان کے پشت پر کوئی میڈیکل اتھارٹی نہیں تھی، اس کو کسی نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں تمباکو کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ یہ قومی نشہ بن رہا تھا۔ دھویں سے بھرے قہوہ خانوں میں لوگ اکٹھے ہوتے اور پائپ سے سگار سے دن رات دھواں اڑاتے رہتے۔ لوگوں کی اس عادت سے کمانے کے لئے منافع بھی تھا۔ برطانوی کالونیوں میں اس کی پیداوار تیزی سے بڑھنے لگی۔ ہزاروں ٹن تمباکو سمندروں میں بحری جہازوں پر کھیت سے منہ تک جانے کے لئے محوِ سفر رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کہانی بتاتی ہے کہ 1855 میں کریمیا کی جنگ کے دوران ایک ترک فوجی کے پاس مٹی کے پائپ ختم ہو گئے تھے۔ اس نے اخبار میں تمباکو کو لپیٹا اور سلگا لیا۔ یہ سگریٹ کی ایجاد تھی۔ دوسرے مشہور قصوں کی طرح یہ کہانی بھی غالباً ٹھیک تو نہیں لیکن اس کا تناظر اہم ہے۔
جنگوں میں خندقوں کے فوجیوں سے عادات وائرس کی طرف ایک سے دوسرے تک سفر کرتی ہیں۔ برطانیہ، روس، فرانس، ترک سپاہی اس وقت میں تمباکو کو کاغذ میں لپیٹ کر پھونک رہے تھے۔ اور جب یہ واپس گھروں کو لوٹے تو وائرس کی طرح ہی ان کی عادتیں معاشرے میں سرایت کر گئیں۔
سمندر پار کر کے یہ ایک سے دوسرے برِ اعظم میں پہنچ رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں 1870 میں سگریٹ کی کھپت ایک سگریٹ سالانہ فی کس تھی۔ صرف تیس سال کے بعد امریکہ میں ایک سال میں ساڑھے تین ارب سگریٹ اور چھ ارب سگار پئے گئے تھے۔ 1953 میں اوسط سالانہ کھپت 3500 سگریٹ فی کس تھی۔ اوسطاً، ایک امریکی روزانہ دس سگریٹ پھونکتا تھا۔ برطانوی بارہ اور سکاٹش بیس سگریٹ۔
سوویت گولاگ میں یہ غیررسمی کرنسی تھی۔ برطانیہ میں یہ بغاوت کی علامت تھا۔ امریکی شہریوں میں یہ مردانگی کی۔ 1850 سے 1950 کے درمیان تنازعات سے بھری بے سمت دنیا میں سگریٹ مرہم کا کام کرتا تھا۔ یہ دوستی، اپنائیت اور ایک جیسی عادات کی علامت تھا۔
اگر کینسر جدید دنیا کی پیداوار ہے تو اس کا سب سے بڑا سبب جس سے بچا جا سکتا ہے، وہ بھی جدید دنیا کی ہی پیداوار ہے۔
یہ تمباکو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن چونکہ ہر کوئی سگریٹ پی رہا تھا تو اس نے ایک اور مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔
چمنی صاف کرنے سے سکروٹم کینسر کا تعلق معلوم کرنا آسان تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت ہی کم لوگ چمنی صاف کرتے تھے اور بہت ہی کم لوگوں کو سکروٹم کینسر ہوتا تھا۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ اکٹھے ہیں تو پھر یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ ان کا آپس میں تعلق ہے۔
لیکن بیسویں صدی کے شروع میں کئی ممالک میں 80 سے 90 فیصد مرد آبادی سگریٹ نوش تھی۔ (خواتین نے یہ کام بعد میں شروع کیا)۔ اگر ہر کوئی سگریٹ پیتا ہے اور ان میں سے کچھ کو کینسر ہوتا ہے تو شماریاتی تعلق کیسے نکلے گا؟ یہاں تک کہ کینسر سرجن، جنہیں اس کینسر سے سب سے زیادہ واسطہ پڑتا تھا، کی نظروں سے بھی یہ تعلق اوجھل ہو گیا تھا۔
جب مشہور سرجن ایوارٹس گراہم (جنہوں نے پھیپھڑے کا ٹیومر نکالنے کی تکنیک ایجاد کی تھی) سے 1920 میں پوچھا گیا کہ “کیا ایسا ممکن ہے کہ پھیپھڑے کے کینسر بڑھے کی وجہ یہ ہو کہ حالیہ برسوں میں تمباکو نوشی میں اضافہ ہوا ہے؟” تو ان کا جواب تھا، “حالیہ برسوں میں نائلون کی جرابیں پہننے میں بھی اضافہ ہوا ہے”۔
اپنے مضر اثرات کو چھپائے ہوئے سگریٹ کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جب تک یہ نظر میں آیا، بہت دیر ہو چکی تھی۔ بڑی تعداد میں لوگ تمباکو کے پودے کے ہاتھوں اپنی زندگیاں تباہ کر چکے تھے۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی وبا زوروں پر تھی۔
منہ میں دبے دھواں اڑاتے سگریٹ سے سیاہ ہوتے پھیپھڑے کینسر کی کالک میں بدل رہے تھے۔
جیسا کہ مورخ ایلن برانٹ نے لکھا، “یہ سگریٹ کی صدی تھی”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply