کینسر (38) ۔ ایک دوا، ایک حدف/وہاراامباکر

تیرہ ستمبر 1962 کو ICI نے ایک کیمیکل کو پیٹنٹ کروایا تھا۔ یہ ٹیموکسفین تھا۔ اور یہ ایک غیر اہم خبر تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کو بنانے والے ہارمون بائیولوجسٹ آرتھر والپول اور سنتھیٹک کیمسٹ ڈورا رچرڈسن تھے۔ اور اس کا مقصد مانع حمل دوا بنانا تھا۔ اس کا پرندے کی شکل کے مالیکیول سٹرکچر ایسا تھا کہ یہ ایسٹروجن کے ریسپٹر سے چپک جاتا تھا۔ اس کے اثرات اس سے بالکل برعکس تھے جس کے لئے اس کو ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایسٹروجن سگنل کو آن کرنا مانع حمل دوا کے لئے لازم تھا لیکن یہ بہت سے ٹشوز میں اس کو آف کر دیتی تھی۔ یہ اپنے کام کے لئے بے کار دوا نکلی۔
لیکن والپول ہگنز کے تجربات کے بارے میں بھی جانتے تھے اور انہیں بیٹسن کے معمے کا بھی علم تھا۔ ان کے ذہن میں اس کا اور کینسر کے علاج کا تعلق آیا۔ یہ مانع حمل دوا کے طور پر تو بے کار تھی لیکن کیا یہ ایسٹروجن کے بارے میں حساس چھاتی کے کینسر میں کردار ادا کر سکتی تھی؟
اپنے خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لئے انہیں کلینکل ٹرائل کرنا تھا۔ آئی سی آئی کے ریسرچ کیمپس کے قریب مانچسٹر میں کرسٹی ہسپتال تھا۔ اور یہاں پر انہیں ایک ساتھی مل گیا جو میری کول تھیں۔
میری کول اونکولوجسٹ اور ریڈیوتھراپسٹ تھیں جن کی خاص دلچسپی چھاتی کے کینسر میں تھی۔ ان کے پاس ایسی خواتین کا وارڈ بھرا ہوا تھا جن کا کینسر ایڈوانسڈ اور پھیلا ہوا تھا اور وہ موت کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ مویا کول کوئی بھی تجربہ کرنے کو تیار تھیں۔
کول کا ٹرائل 1969 میں شروع ہوا۔ اس میں چھیالیس خواتین کو ICI46474 کی گولیاں دی گئیں۔ کول کو کوئی خاص امید نہیں تھی۔ ان کے خیال میں زیادہ سے زیادہ کسی میں جزوی ریسپانس آ سکتا تھا۔ لیکن دس مریضاوٗں میں فوری اور واضح ریسپانس آیا۔ ٹیومر سکڑ گیا۔ پھیپھڑوں میں کینسر چھوٹا ہو گیا۔ ہڈیوں کی درد کم ہونے لگی اور لمف نوڈ نرم ہو گئے۔
کئی خواتین میں یہ کینسر واپس آ گیا لیکن اس کی کامیابی بہت اہم تھی۔ اہم بات اصول کی کامیابی تھی۔ ایسی دوا جو کینسر کے خلیے کے ایک خاص پاتھ وے کو حدف بناتی ہے نہ کہ ایسا ایمپریکل خلیاتی زہر ہے۔ اس نے میٹاسٹیٹک ٹیومرز پر اثر دکھایا تھا۔
ورچیسٹر فاونڈیشن کے بائیوکیمسٹ کریگ جورڈن نے 1973 میں اس کا تجزیہ کیا کہ ٹیموکسفین تھراپی سے ریسانس دینے والے کینسرز کے پیچھے کوئی پیٹرن ہے یا نہیں۔ اس کے لئے شکاگو میں ڈویلپ ہونے والی ایک سادہ مالیکیولر تکنیک استعمال کی گئی۔ اور بیٹسن کے معمے کا حل اس میں سے اچھل کر باہر آ گیا۔
ایسے خلیے جن میں ایسٹروجن ریسپٹر اظہار کرتے ہیں، وہ اس دوا سے فوری ریسپانس دیتے تھے جبکہ جن میں یہ نہیں تھا، ان پر اثر نہیں ہوتا تھا۔ ایک سو سال پہلے اٹھنے والے معمے میں کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا مشاہدہ ہونے کی وجہ سامنے آ گئی۔
ایسٹروجن ریسپٹر کی موجودگی میں یہ دوا چپک کر ایسٹروجن کی سپلائی روک دیتی تھی اور خلیاتی بڑھوتری ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن ای آر منفی میں اس کا کچھ بھی اثر نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت سادہ اور اطمینان بخش وضاحت تھی۔ کینسر کی تاریخ میں پہلی بار ایک دوا، ایک حدف اور کینسر کا خلیہ اپنی مالیکیولر منطق میں بندھے ہوئے سامنے آ گئے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply