متفرقات
جمنا کی زندگی کی کہانی ختم ہو چکی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی زندگی کا ایسا خوشگوار حل دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے تمام تردھاتی کشتے گھس گھس کر ٹھنڈے یافائدہ مند بنائے جاتے ہیں،ایسے ہی اس بدنصیب کی زندگی، ان تما م تر تکالیف اور مصائب میں گھس گھس کر پرسکون ، روشنی بھری، مقدس، بے داغ ہو گئی۔
رات کو جب ہم لوگ حکیم جی کے چبوترے پر اپنی اپنی کھاٹ اور بسترا لے کر جمع ہوئے تو جمنا کی زندگی کی کہانی ہم سبھوں کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور اس کو لے کر جو بات چیت اور بحث ہوئی، اسکی ڈرامائی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔۔۔۔
میں: (پلنگ پر بیٹھ کر، تکیے کو اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے) بھئی کہانی بہت اچھی رہی۔
اونکار: (جمائی لیتے ہوئے) رہی ہوگی۔
پرکاش : (کروٹ بدل کر) لیکن تم لوگوں نے اس کا مطلب بھی سمجھا؟
شیام: (جوش سے) کیوں، اس میں کون سی مشکل زبان تھی؟
پرکاش : یہی تو مانک ملّاکی خوبی ہے۔ اگر ذرا سابھی دل لگا کر تم ان کی بات نہیں سمجھتے تو گئے، فوراً ہی تمہارے ہاتھ سے اصل مال نکل جائے گا، ہلکا پھلکا بھوسا ہاتھ آئے گا۔ اب یہ بتاؤکہ کہانی سن کر کیا احساس اٹھا تمہارے دل میں؟تم بتاؤ۔
میں: (یہ سمجھ کر کہ ایسے موقع پر تھوڑی تنقید کرنا بزرگی کی علامت ہے) بھئی، مجھے تو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ مانک ملّا نے جمنا جیسے کردار کی کہانی کیوں سنائی؟ شکنتلا جیسی بھولی بھالی یا رادھا جیسی پوتر کرداراٹھاتے، یا بڑے ماڈرن بنتے ہیں تو سنیتا جیسی بہادر کردار لیتے یا دیوسینا، شیکھر جیسی تمام اقسام مل سکتی تھیں۔
پرکاش : (سقراط کے سے انداز میں) لیکن یہ بتاؤ کہ زندگی میں زیادہ تر کردار جمنا جیسے ملتے ہیں یا رادھا ،سودھا، گیسو، سنیتا یا دیوسیناجیسے؟
میں: (چالاکی سے خودکو بچاتے ہوئے) پتہ نہیں! میراان سب کے بارے میں کوئی خاص تجربہ نہیں۔ یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔
شیام: بھائی، ہمارے چاروں جانب بدقسمتی سے نوے فیصد لوگ تو جمنا اور رامدھن کی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن اس سے کیا کہانی نویس کو آنکھیں بند کر دینی چاہئیں۔
پرکاش : یہ تو ٹھیک ہے۔ پر اگر کسی جمی ہوئی جھیل پراوپرآدھے انچ برف ہواور نیچے لا محدود پانی اور وہیں ایک گائیڈ کھڑا ہے جو اس پر سے آنے والوں کو اس کے آدھے انچ ہونے کی تو اطلاع دے دیتا ہے اور نیچے موجود پانی کی خبر نہیں دیتا تو وہ راہگیروں کو دھوکہ دیتا ہے یا نہیں؟
میں: کیوں نہیں؟
پرکاش : اور اگر وہ راہگیر برف ٹوٹنے پر پانی میں ڈوب جائیں تو اس کا وبال گائیڈ پر پڑے گا نہ!
شیام: اور کیا؟
پرکاش : بس،مانک بھی تمہاری توجہ اس لامحدود پانی کی طرف دلا رہے ہیں جہاں موت ہے، اندھیرا ہے، کیچڑاور گندگی ہے۔ یا تو دوسرا راستہ بناؤنہیں تو ڈوب جاؤ۔ لیکن آدھے انچ کی اوپرجمی برف کچھ کام نہ دے گی۔ ایک طرف نئے لوگوں کا یہ رومانی نقطہ نظر، یہ جذباتیت، دوسری طرف بوڑھوں کا یہ آدرش اور جھوٹی غیرعلمی عزت، صرف آدھا انچ برف ہے، جس نے پانی کی گہرائیوں کو چھپا رکھا ہے۔
میں اوراونکار: (بور ہوجاتے ہیں، سوچتے ہیں کب یہ لیکچر بند ہو۔)
پرکاش : (جوش سے کہتا جاتا ہے) جمنا متوسط طبقے کا ایک بھیانک مسئلہ ہے۔معاشی بنیاد کھوکھلی ہے۔ اس کی وجہ سے شادی، خاندان، محبت ، سب کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ پر سب اس طرف سے آنکھیں موندے ہیں۔ اصل میں پوری زندگی کا سسٹم بدلنا ہو گا۔
میں: (بورہو کر جمائی لیتا ہوں۔)
پرکاش : کیوں؟ نیند آ رہی ہے تمہیں؟ میں نے کئی بار تم سے کہا کہ کچھ پڑھو لکھو۔ بس ناول پڑھتے رہتے ہو۔ سنجیدہ چیزیں پڑھو۔ سماج کا ڈھانچہ، اس کی ترقی، اس کا مفہوم، اخلاقیات، ادب کا مقام ۔۔۔
میں: (بات کاٹ کر) میں نے کچھ پڑھا نہیں۔۔بس تم ہی نے پڑھا ہے۔ (یہ دیکھ کر کہ پرکاش کی دانش مندی کا رعب لوگوں پر جم رہا ہے، میں کیوں پیچھے رہوں) میں بھی اس کی مارکسی تشریح کر سکتا ہوں ۔
پرکاش : کیا؟ کیا تشریح دے سکتے ہو؟
میں: (اکڑ کر) مارکسی!
اونکار: ارے یار، رہنے بھی دو۔
شیام: مجھے نیند آ رہی ہے۔
میں: دیکھئے، اصل میں اس کی مارکسی تشریح کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ جمنا انسانیت کی علامت ہے، متوسط طبقہ (مانک ملّا) اور امیر طبقہ (زمیندار) اس کو انجام دینے میں ناکام رہے، آخر میں نچلا طبقہ (رامدھن) نے اس کو نئی سمت سُجھائی۔
پرکاش : کیا؟ (لمحے بھرکو ساکت ہوگیا۔ پھر ماتھا ٹھونک کر) بیچارا مارکسزم بھی ایسا بدنصیب نکلا کہ تمام دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑ آیا اور ہندوستان میں آ کر اسے بڑے بڑے نمونے مل گئے۔ تم ہی کیا، اسے ایسے ایسے شارحین یہاں ملے ہیں کہ وہ بھی اپنی قسمت کو روتا ہوگا۔ (زوروں سے ہنستا ہے، میں اپنی ہنسی اڑتے دیکھ کر اداس ہو جاتا ہوں۔)
حکیم جی کی بیوی: (پردے کے پیچھے سے) میں کہتی ہوں یہ چبوترہ ہے یا سبزی منڈی۔ جسے دیکھو پلنگ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ آدھی رات تک کِل کِل! کل سے سب کو نکالو یہاں سے۔
حکیم جی: (پردے کے پیچھے سے کانپتی ہوئی بوڑھی آواز) ارے بچے ہیں۔ ہنس بول لینے دے۔ تیرے اپنے بچے نہیں ہیں پھر دوسروں کو کیوں کھانے دوڑتی ہے ۔۔۔ (ہم سب پر سکتہ چھا جاتا ہے۔ میں بہت اداس ہو کر لیٹ جاتا ہوں۔ نیم پر سے نیند کی پریاں اترتی ہیں، پلکوں پر چھم چھم، چھم چھم رقص کرتی ہیں)۔
(پردہ گرتا ہے)
***
تیسری دوپہر
عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ صبح سو کر اٹھے تو دیکھا کہ راتوں رات اچانک ہوا بالکل رک گئی ہے اور اتنی اُمس ہے کہ صبح پانچ بجے بھی ہم لوگ پسینے میں تربتر تھے۔ ہم لوگ اٹھ کر خوب نہائے مگر اُمس اتنی شدید تھی کہ کوئی بھی حل کام نہ آیا۔ پتہ نہیں ایسی اُمس اس شہر کے باہر بھی کہیں ہوتی ہے یا نہیں۔ پر یہاں تو جس دن ایسی اُمس ہوتی ہے ،اس دن تمام کام رک جاتے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کلرک کام نہیں کر پاتے، سپرنٹنڈنٹ بڑے بابوؤں کو ڈانٹتے ہیں، بڑے بابو چھوٹے بابوؤں پر جھنجلاہٹ اتارتے ہیں، چھوٹے بابو چپراسیوں سے بدلہ لیتے ہیں اور چپڑاسی گالیاں دیتے ہوئے پانی پلانے والوں ،بہشتیوں اور مالیوں سے الجھ جاتے ہیں، دکاندار مال نہیں بیچتے بلکہ گاہکوں کو کھسکا دیتے ہیں اور رکشے والے اتنا کرایہ مانگتے ہیں کہ سواریاں پریشان ہو کر سواری نہ کریں۔ اور ان تمام سماجی اتھل پتھل کے پیچھے تاریخی منطقی استدلال کا اصول نہیں ہوتا ، ہوتا ہے تو فقط درجہ حرارت یعنی ٹمپریچر، اُمس، ایک سو بارہ ڈگری فارن ہائیٹ!
لیکن اس اُمس کے باوجود مانک ملّا کی کہانیاں سننے کا لالچ ہم لوگوں سے چھوٹ نہیں پاتا تھا، اس لئے ہم سب کے سب مقررہ وقت پر وہیں جمع ہوئے ،اور تو اورسب سے پہلے بجائے سلام دعا کے یہی کہا گیا،’’آج بہت اُمس ہے۔‘‘
’’ ہاں جی، بہت اُمس ہے؛ اُ ف او۔‘‘
صرف پرکاش جب آیا اور اس سے سب نے کہا کہ آج بہت اُمس ہے تو فلسفہ جھاڑتے ہوئے افلاطون کی طرح منہ بنا کر بولا (اپنے اس طنزبھرے تبصرے کیلئے معذرت خواہ ہوں، کیونکہ گزشتہ رات اس نے مارکسزم کے سوال پر مجھے نیچادکھایا تھا اور سچے فعال مارکسیوں کی مانند میں جھنجلااٹھا تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحیح بات بھی کرے گا تو میں اس کی مخالفت کروں گا)، بہرحال پرکاش بولا،’’ بھائی جی، جواُمس ہم سب کی زندگیوں میں چھائی ہوئی ہے، اس کے سامنے تو یہ کچھ نہیں ہے۔ ہم سب نیم متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیوں میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا تک نہیں۔ چاہے دم گھٹ جائے پر پتا نہیں ہلتا، دھوپ جسے روشنی دینا چاہئے، ہمیں بری طرح جھلسا رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔ کسی نہ کسی طرح نئے اور تازہ ہوا کے جھونکے چلنے چاہئیں۔ چاہے لو کے ہی جھونکے کیوں نہ ہوں۔‘‘
پرکاش کی اس حماقت بھری بات پر کوئی کچھ نہیں بولا۔ (میرے جھوٹ کیلئے معذرت ،کیونکہ مانک نے اس بات کی زور سے تائید کی تھی، پر میں نے کہہ دیا نا کہ میں اندر ہی اندر چڑ گیا ہوں!)
’’خیر۔‘‘ تو مانک ملّا بولے کہ،’’جب میں محبت پر اقتصادی اثرات کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل میں اقتصادی ڈھانچہ ہمارے من پر اتنے عجیب وغریب انداز سے اثر ڈالتا ہے کہ من کے سارے جذبات اس سے مطابقت نہیں کر پاتے اور ہم جیسے لوگ جو نہ اپّر کلاس کے ہیں،اور نہ لوئرکلاس کے، ان کے یہاں رسم و رواج، روایتیں،طور طریقے بھی ایسے پرانے اور زہریلے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم سب پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ ہم صرف ایک مشین یا ایک پرزہ بن کر ہی رہ جاتے ہیں ہمارے اندر ہمت اور اونچے خواب ختم ہو جاتے ہیں اور ایک عجب سی مردم بیزاری ہم پر چھا جاتی ہے۔‘‘
پرکاش نے جب اس کی حمایت کی تو میں نے انکی مخالفت اور کہا،’’لیکن انسان کو تو ہر حالت میں ایماندار بنے رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹوٹتاپھوٹتا چلا جائے۔‘‘
اس پر مانک ملّا بولے،’’یہ سچ ہے،مگر جب پورے نظام میں بے ایمانی ہو تو ایک شخص کی ایمان
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں