• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پشتون تحفظ تحریک اور ترقی پسند تنقید ۔۔اثرامام/سندھی سے اردو ترجمہ: سلیم نوناری

پشتون تحفظ تحریک اور ترقی پسند تنقید ۔۔اثرامام/سندھی سے اردو ترجمہ: سلیم نوناری

آج کل منظور پشتین کی قیادت میں چلنے والی پشتون تحفظ تحریک بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ آپ اپنے آپ کو اس پر تبصرہ کرنے سے روک نہیں سکتے خواہ وہ تبصرہ اس کی حمایت میں ہو، مخالفت میں یا پھر نام نہاد غیر جانبدارانہ۔ اس وقت تک مغرب کے ایوانوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم لندن کے سربراہ  الطاف حسین، جیے  سند ھ متحدہ محاذ کے سربراہ شفیع برفت اور عوامی ورکرز پارٹی سندہ کی طرف سے پی ٹی ایم کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ جب کہ اس وقت تک پی ٹی ایم کو سہ رخی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ایک تو ریاست اور اس کے گماشتوں کی طرف سے جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ منظور پشتین دشمن کا ایجنٹ ہے اور وطنِ عزیز کا امن امان خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے وغیرہ۔

دوسری تنقید سندھی قوم پرستوں کی طرف سے سامنے آئی ہے جو زیادہ تر اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اس تحریک کے نتیجے میں سندھ  اور سندھیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا۔ ان کو لگتا ہے کہ یہ سارا میلہ صرف اس لیے رچایا گیا ہے تاکہ پٹھانوں کو سندھ ، خاص طور پر کراچی میں مالکانہ حقوق دے کر آباد کیا جائے۔

تیسری تنقید مارکسزم کے برقعہ میں چھپے ہوئے قوم پرستوں ( جنہوں نے لینن سے قوم پرستی سیکھی ہے ) کی طرف سے بھی کی گئی ہے اور اپنے تئیں بہت متناسب تنقید کی گئی ہے۔ اس وقت تک ترقی پسندوں کی طرف سے کوئی باضابطہ تنقید سامنے نہیں آئی ہے ۔ ہمارے ایک مہربان نے چند روز پہلے ایسا ایک مضمون لکھا تھا لیکن اس کا صرف عنوان ہی تنقیدی تھا۔ مضمون کا صرف نام ” پشتون تحفظ تحریک کا تنقیدی جائزہ ” تھا باقی سارے کا سارا مضمون تحریک کے تعریفی تجزیے پر مشتمل تھا۔ بعد میں جس کے جواب میں عبدالخالق جونیجو صاحب نے بھی ایک خوبصورت، مدلل اور تفصیلی مضمون لکھ کر اس تحریک کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور بہت سارے اہم سوالات اٹھائے۔ ترقی پسندوں کی طرف سے اس وقت تک باضابطہ اور خاطرخواہ تنقید سامنے نہ آنے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔

بہرحال مارکسزم اپنے پیروکاروں پر جو پہلا کرم کرتا ہے وہ بھٹائی کی زبان میں ” اکھ الٹی دھار” والی ہے۔ (یعنی تنقیدی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی قابلیت) ایک مارکسوادی دنیا کو ہمیشہ تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ وہ دنیا کو اس حالت میں دیکھ سکے جیسی کہ وہ فی الحقیقت ہے۔ کیونکہ اگر دنیا اور اسکے مظاہر کو تعریفی نگاہ سے ہی دیکھنا ہے۔ اگر ” سب اچھا ہے ” یا ” چلو کچھ تو ہو رہا ہے ” والی روش اپنا کے چلنا ہے تو پھر تو حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پھر تو سیاست کرنا بھی بیکار ہے۔ کیونکہ اس صورت میں سمجھا جائے گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ضرور ہمارے لیے کچھ نہ کچھ بھلائی چھپی ہوگی۔

اس لیے وہ تنقیدی نگاہ جو ہر معاملے اور مظہر سے کیڑے نکالنے اور لازماً منفی نتائج اخذ کرنے کے لیے نہیں بلکہ چیزوں اور مظاہر کو ان کی اصلی حالت میں سمجھنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ تنقیدی نگاہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کی دُھن پر سر ہلانے کی بجائے اس کی ابتدا، مقاصد، طبقاتی ساخت اور مستقبل پر کچھ غور کریں۔ صرف مسنگ پرسنز کے معاملے کو سامنے رکھ کر اس تحریک کو اپنے دور کی سب سے بڑی انقلابی تحریک بیان کرنا یا پھر اس کو اس بنیاد پر رد کردینا کہ یہ پٹھانوں کی تحریک ہے جو سندھیوں کے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے، کوئی صحتمند رویہ نہیں ہوگا۔ ترقی پسند نقطۂ نظر کے حوالے سے اس تحریک پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ
کیا یہ سامراج مخالف ہے یا نہیں؟
دوسرے نمبر پر یہ کہ کیا یہ  ملک کے حکمران طبقات کی مخالف ہے یا نہیں؟
تیسرا یہ کہ اس تحریک میں شامل لوگ طبقاتی طور پر کون ہیں؟
چوتھا یہ کہ تحریک اپنے مطالبات اور منشور کے حوالے سے کس قدر وسیع القلبی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے؟

اس تحریک کی کچھ نہ کچھ مشابہت عرب بہار سے بھی ہے۔ کیونکہ یہ اس ملک کی حقیقی حکمران قوتوں کو للکار رہی ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ منظور پشتین ہمارا ” اپنا بچہ ” ہے لیکن ان کا یہ بیان ایسے ہی ہے جیسے “بلوچ سچے محب وطن ہیں” اور “ملک پر جان لٹانے کو ہر وقت تیار ہیں” ۔

منظور پشتین کے خلاف چھوٹے چھوٹے مظاہرے، ملک کی مین اسٹریم میڈیا سے منظور کی تحریک کا مکمل طور پر گم رہنا اور کچھ دوسرے اشارے یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ “اپنا بچہ” نہیں ہے۔ لیکن ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ “کسی کا بھی بچہ” نہیں ہے۔ جس طرح ایک ٹھیلے والا تیونس کی بادشاہت کو ختم کرنے کا سبب بنا تھا۔ جس طرح شام میں انسانی حقوق اور آزادی کے متوالے مظاہرین نے اپنے حقیقی اور جائز مطالبات سے بشارالاسد مخالف تحریک شروع کی لیکن بعد میں وہ تحریک کس طرف چلی گئی اور کون لے گیا؟ وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب پی ٹی ایم بھی اس طرح کی باتیں کر رہی ہے کہ اگر ہماری فوج اب بھی نہیں سدھر رہی تو مسنگ پرسنز کے معاملے پر اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرنے کی دعوت نہ دی جائے؟ اس لیے باتیں اتنی سادہ نہیں ہیں. چونکہ مطالبات درست ہیں اس لیے واہ واہ کریں! یا پھر چونکہ مسنگ پرسنز پر پہلے کوئی منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا اب اتنی آزادی مل گئی ہے بات کرنے کی اس لیے آؤ مل کر اس تحریک کو مضبوط کریں۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اقوامِ متحدہ کیا ہے؟ اب تک وہ کہاں کہاں مداخلت کر چکی ہے اور اس مداخلت کے نتائج کیا نکلے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن کی طرح اقوامِ متحدہ کو بلانے کے بعد مسنگ پرسنز کی تعداد مزید بڑھ جائے گی؟ یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ اگر آج یہ تحریک پرامن ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ پرامن ہی رہے گی۔ اسلام آباد کے دھرنے ہمارے سامنے ہیں۔ جو پہلے پرامن تھے لیکن بعد میں پرتشدد ہو گئے تھے۔ پی ٹی ایم لاھور کے جلسے میں چارسدہ سے آئے افضل خاموش کی بجائے اسکی پارٹی کے سیکریٹری جنرل تیمور رحمان کی تقریر کرانے سے یہ ثابت ہوگیا کہ سارے معاملات پورے ہوش و حواس کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں۔

پشتون سامعین سے مخاطب ہونے کے لیے اس پشتون مقرر کو اجازت نہ دی گئی جو پشتونوں سے ان کی اپنی زبان میں سامراج مخالفت اور طبقاتی سوال پر مخاطب ہو سکتا تھا۔ اس لیے یہ بات آسانی سے رد نہیں کی جا سکتی کہ امریکہ بادشاہ پاکستان کو بیوفائی کی سزا دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ پاکستان پرانے آقا کی مرضی کے برعکس ایک نئے آقا کا حلقہ بگوش بن چکا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی مغرب کی بجائے مشرق پر انحصار کرنے لگی ہے۔ اس لیے کل تک جو مسائل خود امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر پیدا کر چکا تھا آج ان کا الزام اکیلے پاکستان پر لگا کر اس کو سبق سکھانے کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ کل تک جو اسامہ بن لادن امریکہ کا ہیرو تھا وہ آج پاکستان کا وِلن بن چکا ہے۔ کل تک جو طالبان امریکہ کے اپنے لوگ تھے اور کافر روسیوں سے امریکہ کی اسلامی جنگ لڑ رہے تھے آج وہ دنیا کے لیے خطرہ بن گئے اور انکا خالق و مالک امریکہ نہیں پاکستان بن گیا۔

پشتون تحفظ تحریک نے ابھی تک امریکی سامراج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور مغرب کا سارا میڈیا اس تحریک کو زور و شور کے ساتھ کوریج دے رہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا کا اس تحریک کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا بھی غور طلب ہے۔ حکمران طبقات میں سے یہ تحریک ابھی تک فوج کے علاوہ کسی دوسرے طبقے کی مخالف نہیں ہے خاص طور پر پختون حکمران طبقات کی جو ہر ظلم اور زیادتی میں پاکستانی فوج کے ساتھی رہے ہیں۔ اسی طرح اس تحریک کے دھرنوں میں شامل لوگوں میں اکثریت ان افغانوں کی ہے جو امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ماضی قریب میں واقع ہونے والے مسائل اور تعطل کی وجہ سے وطن واپسی پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف منظور پشتین کے زیادہ تر مطالبات ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کے مطالبات ہیں تو دوسری طرف افغانی پٹھانوں سمیت پشتون قوم کو ملک کے اندر مالکانہ حقوق دلانے کے حوالے سے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری بات یہ کہ کیا ترقی پسندوں کو ہر ابھرتے سورج کا سلامی ہونا چاہیے؟ کیا عوامی اور انقلابی سیاست کو خودرو نظر آنے والی تحریکوں کی پیروی میں چلایا جائے؟ کیا منظور پشتین اور مسنگ پرسنز کو کسوٹی قرار دیا جا سکتا ہے؟ یعنی حقیقی اور سچا انقلابی وہی ہے جو منظور پشتین کی پیروی کر رہا ہے اور اپنی ساری سیاست مسنگ پرسنز کے معاملات پر کھڑی کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں متفق نہیں ہوں۔ تھوڑا انتظار کیا جائے۔ چیزوں کو مزید واضح ہونے دیا جائے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply