میں سوچتا ہوں

میں سوچتا ہوں
محمد رامش جاوىد
آج یوٹیوب پرایک شادی کی تقریب میں مجرا کی ویڈیو، جس میں ناچتی ، اور اپنے جسم کی نمائش کرتی ایک ناچنے والے لڑکی کی پوری ویڈیو دیکھ لینے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ زمانے کو کیا ہو گیا ہے کہ اخلاقیات کی نام کی کوئی چیز بھی ہے کہ تمام حدیں پامال ہوگئیں ہیں ؟سر عام لڑکیوں کو نچایا جا رہا ہے۔
میری دوکان پہ بہت رش لگا ہوا ہے ہر بندہ جلدی میں ہے، دھندا عروج پر ہے جیسے میری تو چاندی ہو گئی ہے ۔میں بھی خوب فائدہ اٹھا رہا ہوں روپے کی چیز دو روپے میں فروخت ہو رہی ہے ۔ رش اتنا ہےکہ کسی کو بل دیکھنے کا ہوش نہیں۔آج تو دوگنا کیا منافع تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔دوکان سے نکلتے وقت یاد آیا کہ آج منی سے وعدہ کرکے آیا تھا کہ آتے ہوئے اسکے لئے تمام خریداری کرتا آئوں گا اسی مقصد کے لئے ساتھ والےبازار میں واقع لطیف بھائی کے جنرل سٹورپر چلا گیا۔وہاں سے منی کے لئے کے سامان خریدا ۔بل دیکھ کر حیران رہ گیا ہر چیز کے نرخ تقریبا دوگنا تھے۔میں وہاں سے نکلا تو سوچ رہا تھا لطیف بھائی نے محلے داری کا خیال بھی نہیں کیا۔ کیا ہو گیا ہے، لوگوں کو کوئی دید لحاظ نہیں رہاپہلے کتنا اچھا دور تھا جو لالچ اور ہوس سے پاک تھا۔
کام کے رش کی وجہ سے آج ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھ سکا قضا ہی پڑھنی پڑے گی، رشیداں کے گھر صدقے کے پیسے بھی بھجوانا بھول گیا ہوں وہ بیچاری بیوہ ہے اس کی گاہے بگاہے مدد کرتا رہتا ہوں ۔سرکار کی طرف سے پابندی کے باوجود میرا گٹکا میرے علاقے کا جانامانا گٹکا ہے ۔ اس کی تیاری بہت مشکل ہے، خاص طور پر جانوروں کے خون کا ملنا مشکل ہے اور بعد میں اس میں آمیزش بھی کافی دقت طلب ہے ۔اخبار پڑھنا معمول ہے مگر موقع شام کو ہی ملتا ہے ۔ لو جی پہلے صفحے پہ منحوس خبر ہے، میرے محلے کی ہی لگی ہوئی ۔قصاب گدھے کا گوشت فروخت کرتے گرفتار ۔میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں ۔یہ تو وہی قصاب ہے جس سے میں پچھلے کئی سالوں سے گوشت خرید رہا ہوں۔آہ اتنے عرصے سے حرام گوشت کھا رہے ہیں ہم لوگ، انسانیت کہاں مر گئی ہے ۔میں بیٹھا یہی سوچ رہا ہوں۔
مجھے سرکاری ملازمت میں بطور کلرک کام کرتے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ۔میں نے ہمیشہ محنت اور خلوص کے ساتھ کام کیا ہے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں ۔ میں نے کبھی بھی کسی سائل سے کام کے عوض رشوت طلب نہیں کی اگر کسی نے خوشی سے کچھ دے دیا تو کبھی انکار نہیں کیا ۔مگر جس سے پیسے لے لئے اس کے کام کو ایمانداری کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر کیا۔ دیکھیں جی ایک کام کے لئے سرکار نے پندرہ دن مقرر کیے ہے اگرمیں وہی کام سات دن میں کر دیتا ہوں تو اس میں برائی بھی کیا ہے۔ میرے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور اوپر سے مہنگائی کا تو پوچھیں مت مگر صاحب یہاں لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا بھی کہاں راس آتا ہے ۔ اب پچھلے دنوں کسی نا ہنجار ،بدبخت نے میرے خلاف انٹی کرپشن میں درخواست گزار دی ہے کہ میں رشوت لیتا ہوں۔ خدا اس کا بیڑا غرق کرے۔ آج کل اینٹی کرپشن والوں کا حال بھی سن لیں بڑا سا منہ کھولے بیٹھے ہیں، مٹھی گرم نہ کرو تو فائل فائلوں میں دبا دیتے ہیں اور پھر چکر پہ چکر لگواتے ہیں ۔
میں واپسی پہ سارے راہ یہی سوچتا رہا کہ کیا کرپشن ہی اس ملک کا مقدر ہے؟ کیا بنے گا اس ملک میں رہنےوالے ہم جیسے غریب لوگوں کا۔ساتھ والے ہوٹل سے ایک نیوز چینل پہ ایک سیاست دان کی تقریر چل رہی تھی وہ ایک سکول میں بچوں سے خطاب کر رہے تھے “کرپشن اس ملک کا مقدر ہے یہ ملک اسی طرح ہی چلتا رہے گا” بچے خاموش تھے شاید وہ اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔
کسی گاوں میں ۔گاوں کا سر پنچ اعلان کر رہا ہے گیارہویں کا ختم ہے آج رات تمام لوگ خاموشی سے اپنی توفیق کے مطابق گاوں کے تالاب میں دودھ ڈالیں گے جس سے کھیر پکا کر ختم دلوایا جائے گا رات کا وقت ہے ایک گھر میں میاں بیوی بات کر رہے ہیں تالاب میں پانی ڈال دیتے ہیں اتنے دودھ میں کسی کو کہاں پتہ چلے گا۔ صبح ہوتی ہے لوگ تالاب کی طرف بڑھتے ہیں ۔ تالاب میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

Facebook Comments

محمد رامش جاوىد
پڑھنے لکھنے کا شغف رکھنے والا درویش منش

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply