جدت یا شدت؟

جدت یا شدت
محمد مجیب صفدر
موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہمیں جدت اپنانی چاہیے ،لیکن اس جدت کے سمندر میں اتنا بھی بہہ نہیں جانا چاہیے کہ ہمیں اپنے مذہب پر شک ہونے لگے اور اپنا ہی مذہب جدیدیت کے رستے میں رکاوٹ لگنے لگے ، یاد رکھیے جب بھی ایسا ہوتا محسوس کریں تو سمجھ جائیں کہ ہماری جدت کے اندر شدت آ رہی ہے،کیوں کہ اسلام سے بڑھ کر کون سا مذہب ہوگا جو جدیدیت کا قائل نہ ہو لیکن اسکے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں اس کے اصولوں کو ہر گز توڑنا نہیں بلکہ ایک حد کے اندر رہ کر جدت اپنانی ہے نہ کہ حدود و قیود کو توڑ کر،کیوں کہ جب آپ حد سے بڑھ جائیں گے تو وہ نہ صرف آپ کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ آس پاس کے لوگوں کے لیے بھی آپ کا حدود سے تجاوز کرنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جدیدیت کے رستے میں رکاوٹ ہے تو وہ جدیدیت کی ابتداؤں پہ ضرور غور و حوض کریں کہ جدیدیت لانے والے کون لوگ تھے،رہی بات آپ کے اندر شقوق و شبہات پیدا ہونے کی تو وہ صرف آپ کی علمی کمزوری کے سوا کچھ بھی نہیں ،ایک سوال کا جواب اگر آپ کو نہیں مل رہا تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ اس کا جواب ہی نہیں ہوگا بلکہ اسکا جواب تلاش کرنےکے لیے آپ کو اپنے سے اوپر والوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ۔جدت اپناؤ لیکن اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کا دفاع اور اس کی ناموس کی پاسداری کرتے ہوئے۔
جب آپ اسلامی اصول و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو پھر آپ سے صرف غیر نہیں اپنے بھی مستفید ہو پائیں گے,بصورت دیگر آپ غیروں کو تو مستفید کر سکتے ہیں لیکن اپنوں کو کوسوں دور ہی کرتے نظر آئیں گے,ویسے بھی یہ کتنا عجیب لگتا ہے کہ آپ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے اتنے آگے نکل جائیں کہ اپنے ہی خالق حقیقی کا انکار کر بیٹھیں, اور حد یہ کہ پھر اسے جدیدیت کا نام دیں,ہاں یہ جدت تو ہے لیکن اس جدت میں انتہاء کی شدت بھی ہے,جو آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑنے والی, اس لیے میرے عزیزوں,جدیدیت اپناؤ لیکن اسے مکمل ہوش و حواس کے ساتھ,اور اپنے مذہب کا دامن مضبوطی سے تھامتے ہوئے۔

Facebook Comments

محمد مجیب صفدر
اپنی ہی ذات میں مگن اپنی ہی تلاش میں رہتا ہوں جب خود سے ملاقات ہو گی تو تعارف بھی ہو جائے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply