اُڑان۔۔محمّد شمس

رات میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں ایک پرندہ ہوں جو اپنے گھونسلے سے اڑنے کی کوشش کررہا ہے اور میری یہ کوشش مجھے ہواؤں میں لپیٹ لیتی ہے۔ میں بے پرواہ اور بے خوف ہو کر بلندیوں پر پہنچ جاتا ہوں۔ جہاں سے میں اب نیچے زمین کی طرف کے پرندوں کا بخوبی مشاہدہ کر سکتا ہوں۔

میں بے فکری سے بلندی کی طرف اُڑتا ہی چلا جارہا تھا ،پھر میں نے اوپر کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے چار پرندوں کو خود سے اونچا اڑتا ہوا پایا۔ مجھے فوراً احساس ہوا کہ میں ابھی بلندی  پر  نہیں ہوں۔  اب میں خود سے اونچا اُڑنے والے پرندوں سے بھی  اونچا اڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک میں نے دیکھا ایک اور پرندہ مجھ سے اونچا اڑ رہا ہے، مجھے احساس ہوا یہ وہی پرندہ ہے، جسے میں مشاہدہ کرتے وقت نیچے کی طرف دیکھ چکا ہوں۔ میں نے اُس پرندے کو ہی نظر میں رکھتے ہوئے بلند اُڑنے کی کوشش کی۔۔۔ میں اب بلند اُڑنے کی اس کوشش سے بیحد تھک چکا تھا۔ میری نظریں ابھی بھی دور افق کی بلندیوں پر مرکوز تھیں۔ جب میں نے نظروں کو بلندی سے ہٹا کر نیچے دیکھا تو میں زمین پر ہی تھا۔

میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ بلندی سے یوں ایک دم پستی میں، آخر کیوں؟

میں نے ہمت کر کے دوبارہ سے اڑنے کی کوشش کی مگر اب کی بار میں اُڑ نہیں پارہا تھا۔ مجھ پر خوف طاری ہوگیا۔۔۔ اور اسی خوف کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی، میں بیدار ہو چکا تھا، اپنے خواب سے بیدار ہو چکا تھا۔

بستر پر لیٹے لیٹے دونوں آنکھیں کھولے میں ایک گہری سوچ میں غوطہ زن ہونے لگا۔۔۔ اور اپنے آپ سے مختلف قسم کے سوالات کرنے لگا:

میں اس بلندی  پر  کیسے پہنچا ؟

میں زمین  پر  کیونکر آن  گرا ؟

زمین پر  گرنے کے بعد میں دوبارہ  اُڑ کیوں نہیں پارہا تھا؟

کسی بھی سوال کا جواب نہ پا کر میں کمرے سے نکل کرچھت پر چلا گیا۔ فضا  پر  سکوت طاری تھا، آسمان پر صبح کا ستارہ نمودار ہو چکا تھا۔ میں وہیں بیٹھ کر ستاروں کی جانب دیکھتے ہوئے  مختلف سوچوں کی گلیوں میں بھٹکنے لگا۔آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا، لیکن مجھے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ ابھی میں ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک کسی کے قدموں کی دھیمی دھیمی سی چاپ مجھے سنائی دینے لگی، قدموں کی وہ چاپ اب تیز ہونے لگی تھی اور میں نے غور کیا تو وہ آواز میرے  عقب  سے آرہی تھی۔ میں نے فوراً پیچے مڑ کر دیکھا تو ایک  خوبصورت لڑکی سفید لباس میں ملبوس ہاتھوں میں کتاب لیے کھڑی تھی۔  اس لمحے وہ لڑکی یہاں کیسے پہنچی، نیچے دروازہ بھی بند تھا، میں حیران پریشان اسے دیکھے جا رہا تھا، وہ مجھ سے تھوڑے  فاصلے پر کھڑی تھی ،میں نے ہمت کر کے اس اجنبی لڑکی سے دریافت کیا ۔۔۔

تم کون ہوں؟؟؟

اس نے بڑی شفقت سے مجھے بتایا کہ میرا نام مشاہدہ ہے۔

پھر مشاہدہ نے مجھ سے میرا نام پوچھا

میں نے فوراً اپنا نام اسے بتا دیا۔

مشاہدہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب کو کھول کر سامنے کی طرف کر کے مجھ سے پوچھا ،کیاآپ اس کتاب میں لکھی ہوئی نظم کو پڑھ سکتے ہیں ؟

میں نے کہا، ہاں بالکل میں اس نظم کو پڑھ سکتا ہوں۔

اس نے مجھے وہ کتاب دے دی۔۔۔ اور میں نظم کو پڑھنے لگا۔

نظم کو پڑھتے ہی میں حیران رہ گیا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں وہی پڑھ رہا ہوں جو اس نظم میں لکھا ہوا ہے۔ اس نظم میں رات دیکھے گئے اپنے خواب کے کچھ سوالوں کے جواب مجھے مل چکے تھے۔

میں نے خوشی سے سر اٹھایا تو مشاہدہ وہاں نہیں تھی۔ اس کو اپنے سامنے نہ پا کر میں اداس ہو گیا اور پھر اس کی دی ہوئی کتاب میں سے نظم کو دوبارہ پڑھنے لگا۔

مشاہدہ کی نظم میں لکھا ہوا تھا:

آداب کو پروان چڑھا کر عزت کما لی

اب بُرا لگتا ہے جب کوئی بے عزتی کرتا ہے

بہت وقت گزرنے کے بعد

اب نگاہ عزت کی تلاش میں پڑتی ہے

اب یوں عزت کو ڈھونڈنا،

مجھے اپنی ہی نظر میں گرا دیتا ہے

اب میں گر چکا ہوں اپنی نظروں میں،

اب میں عزت بحال کرنے کے لیے پھر سے جھوٹ کا سہارا لیتا ہوں

میں اب اس جھوٹ کی دلدل میں خود کو کہیں کھو چکا ہوں

میں اب اپنے ان آداب سے بد اعمالیوں میں پہنچ چکا ہوں

اب میں نہیں رکھتا آداب، نہ ہی عزت کمانے کا کوئی شوق

اب بس پرندوں کی طرح مجھے ان فضاؤں میں اُڑنے کی ہے لگن۔۔۔

بلندیوں پر جانے کی ہے آرزو

سچ اور جھوٹ سے پرے۔۔۔

فضاؤں کی بلندیوں میں ہے ٹھکانہ میرا

Advertisements
julia rana solicitors

فضاؤں کی بلندیوں میں ہے ٹھکانہ میرا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply