مرغیوں اور جانوروں کی عزت بھی خطرے میں ۔ اے وسیم خٹک

وطن عزیز میں جنسی بیماری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر عقل انگشت بد نداں ہے. عورتوں کا جنسی استحصال، چھوٹی لڑکیوں کا جنسی استحصال، لڑکوں کے ساتھ جنسی عمل یہ تو بہت پہلے سے چلتی آرہا تھا. اس کے خاتمے کے لئے حکومت نے اقدامات بھی اُٹھائے. مگر ایسے واقعات پھر بھی کہیں نہ کہیں رونما ہوجاتے ہیں جس میں جنسی بھوک مٹانے کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ استعمال کرکیا جاتا ہے. کہیں پھر ننھی بچی زیر عتاب آتی ہے تو کہیں کوئی خواتین اپنی عزت گنوادیتی ہیں تو کہیں پر کوئی طالب علم سکول یاپھر دینی مدرسے میں اپنے روحانی یا مذہبی اُستاد کے ہاتھوں اپنی عزت پامال کروا لیتا ہے .جس پر معاشرے میں یہ کہہ کر چپ سادھ لی جاتی ہے کہ معاشرے میں مزید بدنامی ہوگی. مگر اب جانوروں کی بھی عزت خطرے میں پڑ گئی ہے. جنسی بھیڑیے اب اپنی شہوت مرغیوں اور دیگر جانوروں سے بھی پوری کرنے لگے ہیں. جس کا ایک واقعہ باقاعدہ طور پر تھانے میں رپورٹ ہوا ہے …

کچھ عرصہ قبل سندھ میں ڈولفن مچھلیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات سامنے آئے تو فیس بک کے دانشوروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر حالات اس کے برعکس تھے.مگر گزشتہ روز پنجاب کے علاقے بھٹیاں میں جو شرمناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک 14 سالہ لڑکے کی مرغی کے ساتھ شرمناک حرکت سامنے آئی ہے جس سے مرغی ہلاک ہوگئی تو مرغی کے مالک نے اس پر ایف آئی آر درج کروائی ۔ جب میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا تو مرغی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی اور اُس کے بعد ملزم کو پاپند سلاسل کردیا گیا.

اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود ہے جس پر فیصلہ کرکے ملزم کوسزادی جائے. کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ پاکستان میں پہلا واقعہ ہے جوباقاعدہ رپورٹ ہوا ہے. ورنہ ایسے واقعات بہت کثرت سے رونما ہورہے ہیں جس میں جنسی درندے اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لئے جانوروں تک کو نہیں بخشتے. بلیاں، مرغیاں، بکریاں اُن کے نشانے پر ہوتی ہیں. جس سے حیوانیت آشکارا ہوتی ہے . اب اس کی وجوہات کیا ہیں۔ کیوں یہ سب ہورہا ہے. کون اس کا ذمہ دار ہے یہ ایک الگ موضوع ہے. بات ہورہی تھی پنجاب میں ہونے والے واقعے کی کہ کیا اس کے لئے قانون میں کوئی شق ہے کہ نہیں .اور اس کی سزا کیا ہے.

انڈیامیں اس کے حوالے سے قانون موجود ہے جس کو دستور ہند کی دفعہ 377 کہا جاتا ہے اوراس قانون کے تحت سزا سنائی جاتی ہے. اوراس پر ایک شخص کو سزابھی دی جاچکی ہے. عدالت نے کھنڈیلا تھانے میں درج کی گئی رپورٹ پر بنوری لال نامی شخص پرپانچ ہزار روپےکا جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر وہ جرمانہ ادانہیں کرسکتا تو چھ مہینے مزید جیل میں گزارے گا.اُس پر الزام لگایا گیاتھا کہ بنوری لال نے ایک شخص کی بھینس کے ساتھ غیر فطری عمل کیا تھا اور انڈیامیں غیر فطری جنسی عمل میں ملوث افراد کوبھی قانون کے کٹہرے میں لایاجاتاہے.

اگر بین الاقوامی طور پر نظر دوڑائیں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں جانوروں کے ساتھ غیر جنسی عمل کیا جاتا ہے مگر ڈنمارک وہ واحد ملک ہے جہاں اس پر کوئی سزانہیں. وہاں اگر لڑکیاں کتوں، گھوڑوں کے ساتھ جنسی عمل کریں یا مرد جانوروں کو جنسی عمل کے لئے استعمال کریں. کوئی مضائقہ نہیں بلکہ وہاں جانوروں کے لائیو سیکس شو کئے جاتے ہیں اور اسی طرح مرد و خواتین کے جانوروں کے ساتھ لائیو شو اور پورن مویز بنائی جاتی ہیں. یہاں پر 17 ٪ پالتو جانوروں کو مالک کی ہوس کا نشانہ بننے پر مجبور ہو نا پڑتا ہے

اسی طرح جانوروں کے ساتھ جنسی عمل دنیا کے تمام کونوں میں ہورہاہےجرمنی میں اس کے لئے باقاعدہ پارک بنائے گئے ہیں. کولمبیامیں جانوروں کے ساتھ بدکاری کی جاتی ہے جہاں گدھیوں کی کافی ڈیمانڈ ہے. جنوبی افریقہ کے سفید فام باشندےانسانوں پر جانوروں کو ترجیح دیتے ہیں .امریکہ میں بھی جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کا رواج عام ہو رہا ہے. سویڈن کےلوگ صدیوں سے جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات کے لیے مشہورہیں۔ہنگری میں جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کر کے فلم بنانے کی بھی قانونی اجازت ہے اور یہ معمول ہے۔ میکسیکو میں سیاحتی مقامات میں ہجوم کی موجود گی میں گدھے کے ساتھ جنسی عمل کیا جاتا ہے اور لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔

یہ سب جمہوریت کے حسن اور اس کے ثمرات ہیں ان ممالک کے پارلیمنٹ میں اس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے مگر اسلامی ممالک پھر پاکستان جیسے ملک میں ایسے واقعات کارونما ہونا خطرے کی گھنٹی ہے .جہاں اب مرغیاں اور جانوروں کی عزت بھی خطرے میں ہے .

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: آرٹیکل کے لئے مواد مختلف سائیٹس سے لیا گیا ہے

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply