تاریخ کی سمت میں کھڑا جج ۔۔اظہر سیّد

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس ثاقب نثار کے حوالہ سے ایک اور چیف جسٹس کے بیان کو بظاہر جھوٹا قرار دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اس کی تصدیق لندن سے کرائی گئی ہے ۔چیف جسٹس کی دلیل یہ بھی تھی کہ بیان حلفی تین سال بعد دیا گیا ہے نیز یہ کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا میرے ججز پر الزام لگایا گیا ہے اور عدالت کا وقار مجروع کیا گیا ہے ۔عوام کی نظر میں ساکھ مشکوک کی گئی ہے ۔

گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا بیان حلفی جھوٹا ہے یا سچا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق سینئر جج شوکت صدیقی کا ایک سیمینار سے خطاب سچا ہے اور   اس خطاب میں میاں نواز شریف کو سزا دلانے کیلئے دباؤ کا انکشاف بھی تین سال پہلے کا ہے ۔اس انکشاف کے بعد شوکت صدیقی کا کیریر ختم ہو گیا اور وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی بھینٹ چڑھ گئے ۔شوکت صدیقی نے نوکری کے دوران ایک الزام عائد کیا اور اس کی قیمت ادا کی ۔بظاہر وہ جج کے عہدہ سے محروم ہوئے لیکن تاریخ میں ان کے مقام کا تعین ہو چکا ہے ۔

پاناما کیس سے جس طرح اقامہ نکلا اور تین مرتبہ کے وزیراعظم کو اقامہ کے ذریعے فارغ کیا گیا اس کے نتائج کا تو اطہر من اللہ خود بھی مشاہدہ کر رہے ہیں ۔اس اقامہ کا ایک نتیجہ تو ملکی معیشت کی نادہندگی ہے ۔دوسرا نتیجہ سی پیک پر چینی ناراضگی ہے اور تیسرا نتیجہ چین آف کمانڈ میں عدم اعتماد کے وہ مناظر ہیں جس میں آئی ایس پی آر کے  تبادلوں کی پریس ریلیز میں بیس نومبر تک کی توسیع ہے ۔تبدیلی نے انصاف کے نام پر جو انڈے بچے دیے  ان   کے نتائج غربت ،بھوک اور بے روزگاری کی صورت میں نظر آرہے ہیں ۔ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے جس پر آئے روز عالمی پابندیاں لگ رہی ہیں اور بازو مروڑ کر فیصلے کروائے جا رہے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف مذہب کا ایک داؤ بھی لگایا گیا تھا اور فیض آباد میں   مولوی خادم حسین کا دھرنا  ہوا تھا ۔اس دھرنے  کا نتیجہ ہزار ہزار روپے  کے خرچے  اور سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے  کے فیصلے کے نتیجے میں نکلا ۔

فیصلہ دینے والے ایک جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کی، لیکن وہ بچ گئے کہ سپریم کورٹ کے جج تھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے شوکت صدیقی نہیں تھے ۔
فیض آباد دھرنے  کے روح رواں مولوی خادم حسین نے ایک تقریب میں دھمکی دی  بتا دوں گا “فیض آباد “میں کس نے بٹھایا اور پھر پانچ روز کے اندر اچانک کرونا کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

میاں  نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی اعترافات پر مبنی ویڈیو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ احتساب عدالت کے یہ جج مس کنڈکٹ کے الزام میں ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور بونس میں زندگی بھی کرونا کے سپرد کر دی ، لیکن انکی سنائی سزا موجود ہے ،یہ ہے وہ عدالتی نظام اور انصاف جسکی ساکھ متاثر ہونے کا واویلا آج اطہر من اللہ کی عدالت میں سنا گیا ۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس موقع موجود ہے وہ اپنا نام تاریخ میں لکھوا جائیں ۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے وہ ثاقب نثار کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یا شوکت صدیقی کی ۔وقت بدل چکا ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت پانی بھی بہہ گیا ہے ۔جسٹس منیر اور بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والوں کا  ذکر بھی ہوتا ہے اور تاریخ میں سابق جنرل مشرف کو سزا سنانے والے پشاور ہائی کورٹ کے جج کے مقام کا تعین بھی ہو چکا ہے، بھلے وہ بھی کرونا کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے لیکن تاریخ میں ہمیشہ ایک حوالے  کے طور پر زندہ رہیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمرِ  خضر تو کسی کے پاس نہیں ۔اطہر من اللہ فیصلہ کر لیں انہوں نے تاریخ کی کس سمت میں کھڑا ہونا ہے اور یہ فیصلہ بھی انکے ضمیر نے ہی کرنا ہے کہ  سمت غلط ہے یا صحیح۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply