بچے کی دعا بزبانِ اقبال۔۔ذیشان ممود

سکول میں اشعار کی تشریح کرنا ایک مشکل امر ہوتا تھا۔ کیوں کہ اوّل تو اس شعر کے مفہوم کو فوراً سمجھنا اور پھر فوراً سے ہی اس کی تشریح کرنا  کار ِ دشوار  تھا۔ اوپر سے استاد محترم کا ارشاد کہ اس شعر کا سیاق و سباق بھی لکھنا ضروری ہے۔ مرتے کیا نہ کرتے،سکول کی اردو کی کتاب میں محدود تعداد میں دی گئی نظموں کو رَٹ لیا جاتا تھا اور پھر سیاق و سباق کے اشعار نہایت خوشخط درج کئے جاتے تھے۔ ایک اور قابلِ ذکر امر یہ تھا کہ  سکول میں استادِ محترم کی تشریح کی اہمیت تھی اور اس کے تمام نکات درج کرنا لازمی تھے، تبھی امتحان میں اچھے نمبروں کی امید رکھی جاسکتی تھی۔ لیکن اب ہم تشریح کرنے میں بالکل آزاد ہیں۔

9 نومبر کو ‘‘اقبال ڈے’’ کی رخصت کا انتظار کیا جاتا تھا کیونکہ یہ ماہِ نومبر کی واحد قومی چھٹی ہوتی تھی، اب تو اقبال کے تصور، فلسفہ اور شاعری کی طرح اقبال بھی خبروں کی شہ سرخیوں میں  صرف 9 نومبر کو نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک روز میں ہی ان باتوں کی جگالی کر کےبھلانا آسان ہوتا ہے۔ بار بار یاد دہانی سے کوفت ہونے لگتی ہے، سکول میں اقبال کی بچوں سے متعلق نظمیں پڑھ کر یہی معلوم ہوتا تھا کہ اقبال شاید بچوں کے شاعر ہیں۔ لیکن عمر کی پختگی نے اس کم علمی کو بھی رفتہ رفتہ بڑھایا کہ اقبال ایک تصوراتی، بلند حوصلگی والے شاعر ہیں۔ ا ن کی شاعری کے محاسن پر ہی کئی کتب اور مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں اور مضامین و کالمز کی تعداد تو ہزاروں میں ہوگی۔

سکول کی اسمبلی میں قومی ترانے سے قبل علامہ اقبال کی خاص دعائیہ نظم ‘‘بچے کی دعا’’ اسمبلی میں دہرانا اور 10 سال تک دہراتے رہنا اس وقت تو شاید  سکول کے لئے اور طلباء کے روشن مستقبل کی امید جگانے کے لئے ضروری تھی۔ کہنے کو تو یہ ایک مختصر سی نظم ہی ہے لیکن اس نظم نے کئی طور سے مستقبل میں ترقی کی آشا اور امید جگائی۔ سب سے بڑی بات اس نظم کی تشریح کرنے میں اب ہم آزاد ہیں۔ لیکن شاید بنیادی نکات وہی رہیں جو پہلے ذہن نشین کروائے گئے ہوں۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال کے لفظوں میں ڈھلی یہ دعا جہاں طالبِ  علم کو ایک روشن طریق بتاتی ہے وہیں خدا تعالیٰ سے تعلق کا اظہار بھی کرتی ہے۔ علامہ موصوف نے کتنے خوبصورت الفاظ میں زندگی کا محور اور مرکز بتا دیا۔ زندگی کی شمع سے تشبیہ کتنی کامل ہے، کہ جیسے شمع دوسروں کو روشنی دے کر فائدہ دیتی ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی فنا ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح انسان کو بھی نفع رساں وجود بن کر جہاں اَنا اور خودی کو ختم کر تا ہے وہیں انسان دنیا میں اپنا اور اپنے وطن کا نام بھی روشن کر دیتا ہے۔ یہاں خودی کا فلسفہ علامہ اقبال نے بڑے عام فہم الفا ظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
اس نظم کا ایک ایک شعر ہر طالب علم کے لئے ایک نہایت اہم اور اچھوتا پیغام اور لائحہ عمل لئے ہوئے ہے۔ یہ نظم ہر طالب علم کو دنیا کو نا صرف فتح کرنے کا بلکہ دنیا کو زیر کرنے کا بھی حوصلہ دلاتی رہی۔ ایک شمع اپنی وسعت سے دور تک ازدیادِ روشنی کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن علامہ کی دعا میں طالبِ دعا یہ دعا کرتا ہے کہ ایک شمع تو ایک جگہ یا اپنے مرکز کے اردگرد کو روشن کرتی ہے۔ یارب مجھے ایک نافع الناس وجود بنانا کہ میری روشنی بھی ختم نہ  ہو،بلکہ میری وجہ سے دنیا میں چارسو روشنی پھیل جائے۔
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
حب الوطن من الایمان کا درس دیتی یہ نظم طلباء کو وطن کی رونق قرار دیتی ہے۔ اور وطن کے باغ و بہار کے دلکش و بارونق و خوش رنگ پھولوں کی طرح دلکش رہنے کا سبق سکھاتی ہے۔ باغ کی رونق اور زینت کے لئے جیسے نت نئی کونپلیں اور گل و لالہ ضروری ہیں اسی طرح وطن کی ضروریات اور زینت کے لئے جہاں نت نئے آئیڈیاز اور ترقیات کے حامل نوجوان ضروری ہیں وہاں وطن کے سپوتوں میں یہ امید بھی ضروری ہے کہ وطن کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کئے رکھیں۔

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
رسول خدا نبی اکرمﷺ کے تعلیم سے متعلق بابرکت اقوال علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے، اور علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے یا مہد سے لحد تک علم حاصل کرو کی تکرار کرتی یہ نظم دعا کی صورت میں یہ ترغیب و تحریص دلا رہی ہے کہ علم نورِ خدا وندی ہے۔ یہاں پھر علم کو شمع سے تشبیہ دے کر علامہ اقبال نے پھر اس بات کی یاددہانی کروائی ہے کہ علم بھی شمع ہے اور زندگی بھی ایک شمع ہے۔ لیکن دونوں فائدہ مند بنانا انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اس شعر میں پروانے اور شمع کی محبت کی تشبیہ سے طالب علم کی زبانی علم سے محبت کا اقرار کروایا ہے۔ اور دعا مانگی گئی ہے کہ ایسی محبت تعلیم سے ہو کہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے انسان لحد تک چلا جائے لیکن محبت اور پیاس ختم نہ ہو۔

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
جہاں اس نظم میں وطن کی خدمت کی ترغیب ہے وہیں اہم عبادت حقوق العباد کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ہمارا تعلیم حاصل کرنا صرف اس لئے نہ ہو کہ ذاتی مفاد قائم کئے جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ڈالی ہے اور جو وطن کی محبت کا تقاضا  ہے وہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہو کہ غریبوں ، درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کی جائے۔ ان کی خدمت کی جائے۔ ان کی حمایت کی جائے۔ حمایت کا لفظ اس بات کا عکاس ہے کہ تعلیم کے بعد عملی طور پر جو اقدام کئے جائیں وہ عوامی فائدہ کے لئے ہوں۔ اور یہی ہمارا دینی اور قومی فریضہ بھی ہے۔ کیا ہی خوب کہا گیا ہے کہ

مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام ہے، یہی میری ذمہ داری ہے، یہی میرا فریضہ ہے اور یہی میرا طریق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
اور سب سے اہم اور ضروری دعا ہر ایک کو یہی کرنے چاہیے  کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے بد خیال سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ نیکی کی روہوں پر قدم مارنے والا بنائے۔ کوئی بھی بدی ہمارا راستہ نہ روکے اور ہم بحیثیت قوم آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ یہ وہی دعا ہے جو ہر روز، ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم مانگتے ہیں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہ اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلا!
اللہ کرے کہ ہم علامہ اقبال کے تصور اور خیالات سے حقیقی رنگ میں مستفید ہونے والے ہوں!

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply