• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ،حقوق دو ٹیکس لو۔۔۔ شیر علی انجم

گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ،حقوق دو ٹیکس لو۔۔۔ شیر علی انجم

محترم قارئین تمہید نہیں باندھوں گا بلکہ یہی کہوں گا کہ ٹیکس دنیا کے مہذب معاشروں میں نظا م چلانے کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن عجیب صورت حال ہے اس وقت، پاکستان میں نون لیگ جو پچھلے 35سالوں سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے اور اُنہوں نے ملک کیلئے کیا خدمات سرانجام دیں، پانامہ کیس اور نواز شریف کی نااہلی تک کے سفر میں پاکستان کے عوام نے دیکھ لیا اور ابھی مزید پنڈورا بکس نے کھلنا ہے اور ملک میں حکمرانی کے نام پر لوٹ مار کرکے مملکت پاکستان کو غریب اور پاکستان کی آنے والی نسلوں کو کشکول تھمانے والوں کا کڑا احتساب ہونا ہے۔ لیکن ایک ایسا خطہ جس کے حوالے سے وفاق پاکستان ،ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اقرار کرچُکے ہیں کہ یہ خطہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اس خطے کو یہاں کے عوام کے مسلسل مطالبات کے باوجود پاکستان کے آئینی دائرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے مسئلہ کشمیر پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں جس کا بہانہ بنا کرحکمران پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔

گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہوگا جہاں شامل ہونے کیلئے لوگ دعائیں مانگتے ہیں احتجاج کرتے ہیں مقامی قانون ساز اسمبلی میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار متفقہ قراداد پاس کرچُکے ہیں کہ جناب ہمیں قومی شناخت چاہئے ہمیں بھی مکمل طور پر پاکستانی ہونا ہے لیکن مسترد ہوئے۔ وجہ وہی مسئلہ کشمیر سے منسلک تنازعہ ہے ،لہٰذا ایسا کیا تو مسئلہ کشمیر پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ یعنی ہماری تمام تر وفاداریاں اپنی جگہ لیکن گلگت بلتستان کے عوام نے آج تک اس مسئلے کے قانونی پہلو کو جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کیلئے دستور پاکستان اور بین الاقوامی قوانین میں کس حد ممکنات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک طرف مملکت پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں دوسری طرف پریشان بھی کرتے ہیں کیونکہ قانون کے مطابق جب ایک بات طے ہوجاتی ہے تو اس پر بار باراصرار کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ معاملات بننے کے بجائے بگڑ بھی سکتے ہیں۔لہٰذا یہ بات تو اب روز روشن کی طرح عیاں  ہے کہ گلگت بلتستان صوبہ کشمیر کاز کی وجہ سے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ،لہٰذا گلگت بلتستان کے عوام کو اب یہ بات سمجھ میں  آجانا چاہئے اور الحاق کیا تھا جیسے نعرے  کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ،لہٰذا اُسے ترک کردینا چاہئے کیونکہ مملکت پاکستان اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بین الاقوامی طور پر وطن عزیز کی مجبوریوں کو سمجھیں اور ایسے مطالبات سے گریز کریں جس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو۔ دوسری طرف وفاق میں بیٹھے حکمرانوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہئے کہ ایک ایسے خطہ کو  جوپچھلے سترسالوں سے تمام قسم کے بنیادی حقوق سے محروم ہے اس خطہ میں شرح روزگار نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری محکموں میں نوکریوں کا حصول مقامی حکومتوں کی کرپشن اور اقرباء پروری کی وجہ سے عام آدمی کیلئے ایک خواب سے کم نہیں۔نجی سطح پر مواقع موجود نہیں،قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے کے وسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن بروئے کار لانے کیلئے قیادت کا فقدان ہے،شرح تعلیم بہتر ہے لیکن شرح صحت سے لیکر شرح آمدنی زیرو ہے، جس کی بنیادی وجہ اس خطے کا متنازعہ ہونا ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے جب متنازعہ حیثیت کی وجہ سے حقوق نہیں دے سکتے تو یہاں ٹیکس نافذ کرنے کیلئے کس قانون کا سہارا لیا جارہا ہے ؟

کیا جس قانون کے تحت گلگت بلتستا ن میں تمام قسم کے ٹیکسز نافذ کررہے ہیں اُسی قانون میں اس خطے کی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے کوئی شق موجود نہیں؟ بالکل ہو گی، لیکن عمل درآمد شرط ہے۔ گلگت بلتستان کے وسائل کی بندربانٹ کیلئے قانون لاگو ہوسکتا ہے تو متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر حقوق دینے کیلئے قانو ن کےحرکت میں نہ آنے کی وجہ کیا ہے؟ گلگت بلتستان کے عوام سمجھنے سے قاصر ہے۔ لیکن یہاں کے عوام کی مجبوری یہ ہے کہ مقامی طرز حکومت نے اس قسم کی باتیں کرنے اور سوالات اُٹھانے والوں کو دیوار سے لگانے کی قسم کھائی ہوئی ہے ،یہ قسم بھی کس قانون کے تحت ؟کسی نے آج تک سوال نہیں کیا۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا گلگت بلتستان کی خوبصورتی پر تو بڑا فخر کرتے ہیں، کے ٹو، ننگا پربت ،سیاچن،شندھور،دیوسائی،سست،خنجراب کی باتیں تو بہت کرتے ہیں بلکہ فخر پاکستان کا لقب بھی دیتے ہیں لیکن اسی میڈیا نے آج تک حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کیا کہ گلگت بلتستان کو متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر حقو ق کیوں نہیں دیےجارہے؟،یہاں کے عوام آج اکیسویں صدی میں بھی انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم کیوں ہیں؟۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی چوہے کی موت پر بھی احتجاج کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان میں حقوق مانگنے کے جرم میں چالیس سال قید کی سزا پانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،جن افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا ہے اُنکا بھی کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ مقامی سطح پر جن افراد کے پاس عہدے ہیں وہ لوگ ایک طرح سے سیاسی نابالغ ہیں تو دوسری طرف اُن کے اختیارات میں صرف مراعات کا مطالبہ ہے اور وہ اسی پر خوش ہیں ،بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جو کرنا ہے کرلو لیکن ہمیں حکومت کرنے دو۔

گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب سردار عتیق نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا تو دوسرے دن گلگت بلتستان کے ڈپٹی اسپیکر بیان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سٹیٹ سبجیکٹ ہم نے خود ختم کرایا ہے، لہٰذا کشمیریوں کو اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کو اپنے اختیارات کا علم نہیں ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں ہمیں ہماری اوقات سےزیادہ پذیرائی مل رہی ہے اس پر ہم خوش ہیں ورنہ یہ معاملہ اُس وقت حل ہوگا جب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں یہاں رائے شماری ہوگی، اُس وقت تک گلگت بلتستان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے آزاد کشمیر،جموں کشمیر اور لداخ۔ اس وقت گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سب سے پیچیدہ مسئلہ کشمیر ایشو اور انقلاب گلگت کو سمجھنا ہے جس کیلئے ہمارے عوام بشمول کچھ مذہبی لوگوں کے بالکل ہی تیار نہیں بلکہ وہ عہدوں کے عوض نعرے لگاتے ہیں جن کے پاس گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی قانونی اور آئینی نظریہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ اُنہیں گلگت بلتستان میں باری اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع ملنے کے باوجود پانچویں صوبے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ٹیکس کے حوالے سے بات کر آگے بڑھائیں تو یہ بات سمجھنے سے ہمارے عوام بالکل قاصر ہیں کہ جس قانون میں ہمیں اپنے خیالات شامل کرنے کی اجازت نہیں اُس قانون کے مطابق گلگت بلتستان میں سیلز ٹیکس،انکم ٹیکس،ودہولڈنگ ٹیکسس کا نفاذ کس طرح کیا؟ لمحہ فکریہ ہے ۔ لیکن اس قسم کے معاملات پر بات کرنا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے اور وہ تیارنہیں بلکہ وزیراعلیٰ صاحب ٹیکس کے معاملے میں بات کرنے کودیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف قرار دے چُکے ہیں کسی کا خیال ہے کہ ٹیکس ہر حال میں دینا پڑے کا مگر کس قانون کے تحت کوئی جواب نہیں، اب تو حکومتی مراعات یافتہ لوگوں نے ٹیکس کے خلاف جاری شٹرڈاون، پہہ جام ہڑتال کو بھی وزیر اعلیٰ کے خلاف سازش قرار دینا شروع کیا ہے اور  یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش میں لگے ہیں کہ اس قسم کے تمام ٹیکسز کیونکہ سابق حکومت کے کارنامے ہیں لہٰذا ہم نے اس معاملے میں کچھ نہیں کرنا ہے۔ایک غلط کام اگر سابق حکومت نے کیا تو کیا موجودہ حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ عوامی کی نمائندگی کرےاور متنازعہ حیثیت کے مطابق وفاق سے بات کرے؟ لیکن کسی نے توجہ دلانے کی کوشش بھی کی تو وہ سازشی عناصر سی پیک مخالف قوتوں کیلئے مواقع فراہم کرنے والے وغیر وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ ہے کہ عوامی حقوق سے سی پیک کا کیا تعلق؟ کیا قومی اسمبلی اور سینٹ میں پاکستان کے چاروں صوبے حقوق کے حصول کیلئے دست و گرییاں نہیں ہوتے؟ لیکن افسوس کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ متنازعہ خطے پر حقوق کے بغیر غیرقانونی ٹیکس نافذ کرکے نون لیگ کی حکومت دراصل گلگت بلتستان کے عوام کو اُکسانا چاہتی ہے تاکہ سی پیک مخالف قوتوں کو گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت پر بولنے کا موقع ملے ،لہٰذا چیف آف آرمی سٹاف کو اس معاملے میں چھان بین کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ کونسی قوتیں ہیں جو سیاست کے نام پر  گلگت بلتستان کے عوام کو کبھی کسی مسئلے پر تو بھی کسی مسئلے پر سڑکوں پر نکلنے کیلئے مجبور کرتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کا جینا مرنا پاکستان کیلئے ہے، لہٰذا ایک ہی حل متنازعہ حیثیت کی بنیادپر حقو ق دینا ہے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق کیلئے پچھلے تین دنوں سے شٹرڈاون کئے بیٹھے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا کی نظروں سے یہ اوجھل ہے، آخر کیا وجہ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی میڈیا بھی نون لیگ کی حکومت کے نقش قدم پر چل پڑا ہے جنہیں گلگت بلتستان کی حساسیت اور یہاں پربھڑکنے والے شعلوں کا احساس نہیں ۔ مگر افسوس الیکٹرانک میڈیا نے بھی گلگت بلتستان کے عوام کو تنہا چھوڑ دیا ۔ اب ہمارے پاس ایک آخری اُمید پاک فوج جو ہر بُرے وقت میں گلگت بلتستان کے عوام کا ساتھ دیتی ہیں اُن سے گزارش کروں گا کہ خدارا گلگت بلتستان کو مقامی مراعات یافتہ طبقے سے بچائیں اُن عزائم میں جندال نظر آتا ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو ٹیکس کے نام پر اُکسانا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام ٹیکس کے مخالف نہیں بلکہ اُن عزائم کے خلاف ہے جو اس وقت گلگت بلتستان میں پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کو وہ حقوق دیئے جائیں جس سے سی پیک محفوظ ہو ،پاکستان کی خارجہ پالیسی پر منفی اثرانداز نہ ہو اور کشمیر کاز کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ گلگت بلتستان میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے آزاد کشمیر طرز پر بااختیار آئینی ڈھانچے کی تشکیل دیں اس سے فیڈیشن مضبوط ہوگی اور پاکستان دشمن عناصر کے عزام کو بھی شکست ہوگی۔

 

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply